کراچی: نتائج میں تاخیر پر کئی سیاسی جماعتوں کا بلدیاتی انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2023
پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی اپنا میئر لانے کیلئے مختلف آپشنز پر غور میں مصروف ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی اپنا میئر لانے کیلئے مختلف آپشنز پر غور میں مصروف ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات کو تقریباً ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود حتمی نتائج میں تاخیر پر احتجاج کرنے والی کئی اپوزیشن جماعتوں نے اس پورے انتخابی عمل کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتجاج کرنے والی جماعتوں نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے بعد بلدیاتی انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا مطالبہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سامنے آیا ہے جو بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔

15 جنوری کو ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) نے بھی نئی حلقہ بندیوں کے بعد دوبارہ انتخابات کا مطالبہ دہرایا ہے۔

اس کے برعکس کراچی کی 2 سرکردہ جماعتیں پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی اپنے آئندہ لائحہ عمل پر بات چیت میں مصروف نظر آئیں کیونکہ میئر کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے دونوں جماعتیں مختلف آپشنز پر غور کررہی ہیں۔

صدر پی ٹی آئی کراچی اور رکن سندھ اسمبلی بلال غفار کی قیادت میں ایک وفد نے الیکشن کمیشن کے صوبائی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سینیئر حکام سے ملاقات کی۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ انہوں نے بعد از انتخابات دھاندلی کے دستاویزی شواہد الیکشن کمیشن کو فراہم کیے ہیں اور پیپلزپارٹی کی غیر قانونی کارروائیوں کے خلاف الیکشن کمیشن سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب ٹی ایل پی کارکنان کی بڑی تعداد نے الیکشن کمشین آفس تک مارچ کیا اور مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا۔

ٹی ایل پی رہنماؤں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنرز، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور خود حکومت نے بھی انتخابات میں براہ راست مداخلت کی لیکن بار بار شکایات کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ٹی ایل پی کے قاسم فخری نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت سندھ اور الیکشن کمیشن ہمارے مینڈیٹ پر حملہ نہیں کر سکتے، کراچی کے عوام اور شہر نے بڑی امیدوں کے ساتھ ہمیں ووٹ دیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر انتخابات کے انعقاد کا یہی طریقہ ہے تو ہم اس عمل اور اس کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں، ہم ایک متفقہ ضابطہ اخلاق کے ساتھ نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں جس پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہو‘۔

دوسری جانب ایم کیو ایم پی نے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے تحفظات کو کراچی اور حیدرآباد میں غیر قانونی اور غیر منصفانہ بلدیاتی انتخابات کے خلاف اپنے بیانیے کی جیت قرار دیا۔

بہادر آباد میں پارٹی کے عارضی ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق میئر کراچی اور ایم کیو ایم پی کے سینئر رہنما وسیم اختر نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جسے انہوں نے انتخابی عمل کی شفافیت پر شکوک و شبہات کا باعث قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا ہے لیکن الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کرنے میں تاحال ناکام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 7 سے 8 فیصد تک معمولی ٹرن آؤٹ کے باوجود نتائج کے اعلان میں تاخیر نے ہماری جماعت کے شکوک و شبہات کو درست ثابت کر دیا ہے، جو بھی جماعت میئر کا عہدہ سنبھالے گی وہ کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کی نمائندگی نہیں کرے گی۔

تاہم ان تمام جماعتوں کا متفقہ مطالبہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے لیے غیرمؤثر ثابت ہورہا ہے جوکہ اپنی آئندہ حکمت عملی پر بات چیت میں مصروف ہیں اور اپنا میئر لانے کے لیے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے امکان پر غور کررہی ہیں۔

اسی حوالے سے ایک اہم پیش رفت میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں پارٹی وفد آج پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقات کرے گا، واضح رہے کہ جماعت اسلامی اس سے قبل پیپلز پارٹی سے بھی اسی معاملے پر مذاکرات کر چکی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں