ہماری تاریخ میں ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ حکومتی اداروں، محکمہ جات، صوبائی حکومتوں غرض ہر ضرورت مند کو قرض کے حصول کے لیے 2 بینکوں یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان یا نیشنل بینک آف پاکستان یا ان میں سے کسی ایک بینک سے ضمانت دینی ہوتی تھی کہ رقم ڈوبے گی نہیں، وقت پر ادائیگی ہوگی اور شرائط پوری نہ ہوئیں تو رقم لوٹانے کے ہم ذمہ دار ہوں گے۔

قرض دینے والے انتظار کیا کرتے تھے، ویسے ہی جیسے سادھو کسی ضرورت مند کا منتظر ہو۔ رقم میں لیتا تھا اور خرچے وزیرِاعظم یا صدرِ پاکستان کا منظورِ نظر ضرورت مند اپنے استعمال میں لانے کے لیے مجھ سے بھی مضطرب و بے قرار ہوا کرتا تھا۔ اور کمیشن کسی اور کے نصیب کا ہوتا تھا۔ مجھے اپنی کتابوں میں حساب برابر رکھنا ہوتا تھا مگر یہ معاملات کب تک چل سکتے تھے، پھر معاملہ ملکی وقار اور عزت، احترام اور رکھ رکھاؤ کا ہوتا تھا اس لیے جلی کٹی بھی میں ہی سنتا اور لیجر بُک میں گڑ بڑ بھی میں ہی کیا کرتا تھا۔ آخر کبھی نہ کبھی تو یہ بات منظرِ عام پر آنی تھی۔ سوزوکی کی حیثیت رکھنے والے کے پاس 4000 سی سی کی گاڑی کس طرح آگئی؟ بیاج پر قرض دینے والا نظر بھی رکھتا ہے اور اس کو حال احوال دینے والے سجن اور دشمن ملتے ہیں اور خبر کی اہمیت کے مطابق سہولت بھی حاصل کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں حکومتوں کے بدلنے کا کھیل سیاسی سمجھا جاتا ہے مگر وجوہات تو ہمیشہ کچھ اور ہی ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سے کچھ بیان ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور زیادہ تر کے لیے ابھی فضا اچھی نہیں۔

جنرل مشرف اور جنرل ضیاالحق کے اقتدار سنبھالتے وقت بھی اچھی معاشی حالت کے نہ ملنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ حکومت تبدیل کرنے کا وقت آپہنچا تھا اور 58 (2) بی نے جو بھرم رکھا ہوا تھا اس کو ہم نے کئی طرح کے وعدے کرکے، سمجھوتے کرکے، میثاق تحریر کرکے اور پھر انہی کے راستوں پر چلتے ہوئے انہی سے ایسے معاہدے قبل از وقت کر لیے جن کا اس وقت ہمیں ادراک تھا۔

دورِ مشرف میں اس معاشی صورتحال کو بھانپ لیا گیا تھا اور قومی اسمبلی سے قانون منظور ہوا تھا کہ حکومت اپنے جی ڈی پی کے 65 فیصد سے زائد کے قرض نہیں لے سکے گی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی اور پھر قرضوں کی تفصیل قومی اسمبلی کے سامنے رکھی جائیں گی۔

یہ صورتحال اب غالباً 115 فیصد ہوچکی ہے گویا جو ہم سال میں کمائیں گے اس میں 15 فیصد اور ڈال کر واپس کریں گے، کہاں ہیں وہ خزانے یا شخصیات جو ہم سے یہ سب کرواتے رہے اور اب ہم اپنی ضرورت کا ہر رشتہ خود ہی نبھاتے نبھاتے ہر طرف سے خلع یا طلاق کے قابل ٹھہرے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر پاکستانی اپنے تجارتی مرکز کو تالا لگانے کو تیار بیٹھا ہے۔

نہ خوراک پوری ہورہی ہے نہ ضروریاتِ زندگی، نہ صحت، نہ ادویات، نہ عزت اور نہ ہی تعلیم گویا جس چیز کا نام لیں اس کے ناپید ہونے کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ لیکن پھر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جن سے بڑے بڑے شاپنگ مالز بھرے پڑے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر غیر ملکی اشیا کی خرید و فرخت ہورہی ہے۔

طبقاتی نظام سے مجھے تو انکار نہیں مگر دولت کی مساویانہ تقسیم تو شرعی حکم ہے پھر تضادات اور نام اللہ کے دین کی سربلندی کا۔ سربلندی کا تقاضا یہ ہے کہ جس کے پاس نہیں اس کو دو اور اس سے لے کر دو جس کے پاس ضرورت سے زیادہ ہے۔ خدا جانے میرے وطن کے بدنصیبوں اور انصاف کے متلاشیوں کو انصاف کب اور کون دے گا؟ انصاف عدل کی صورت میں ہی مکمل ہے ورگرنہ انتقام ہوا کرتا ہے۔

لیکن ہم سب کا پاکستان سے انتقام کیسا؟ جناب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اردلی کو علم ہوگا کہ آٹے دال کا مول کیا ہے؟ مگر پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کے نتیجے میں نظر آنے والے مناظر بہت خوفناک ہیں اور چیف جسٹس اس سے آگاہ ہیں اور وہ پاکستان پر رحم فرمائیں اور اس کیس کا مقدمہ سننا شروع کردیں جس میں ہمار ی معیشت کے اس ایکٹ کو بنیاد بنایا ہے اور تقاضہ کیا ہے کہ اس کے ذمہ داروں کا تعین کرکے ہماری جان ان سے چھڑوائیں تو ان کا بڑا احسان ہوگا۔

میری اور میرے وطن کی عمر میں تقریباً 7 برس کا فرق ہے۔ تھوڑا بہت پڑھتا رہا ہوں، جوں جوں تاریخ پڑھوں اور معاشی تجزیہ کروں تو ہر طرف بونے ہی بونے نظر آتے ہیں۔ بچے بھی اکانومسٹ، بیرسٹر بھی اکانومسٹ، زمیندار بھی اکانومسٹ، بینکر بھی اکانومسٹ اگر کوئی اکانومسٹ نہیں ہے تو اکانومکس میں پی ایچ ڈی کرنے والا نہیں ہے۔ اخبار پڑھ کر، ٹی وی کا مباحثہ اور ڈرامہ دیکھ کر ہر کوئی سیاستدان بننا جاتا ہے۔ میرے جیسے نا سمجھ بھی آئین کا حوالہ دیتے تھکتے نہیں۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں اپنی نیک نامیوں اور کارناموں سمیت ختم ہوچکی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں حکومت اور اپوزیشن نے اعظم خان پر اتفاق کیا اور گورنر حاجی غلام علی نے تعیناتی کے احکامات جاری کردیے۔ دوسری طرف پنجاب میں پرویز الہیٰ تو ابھی مزید رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرما دیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا وزیرِ اعلیٰ نہیں مانیں گے اور اسے کام نہیں کرنے دیں گے۔

جب ملک کی ایسی صورتحال ہے کہ جہاں ایل سی کُھل نہیں رہی، صوبے مقروض ہیں، تنخواہ دینے کو پیسے نہیں، انتخابی قواعد بھی اور تقاضے بھی ابھی پورے نہیں اور ان حالات میں جو اسمبلی خود توڑی ہے اس کے انتخاب کی تاریخ بھی نہیں مل رہی۔ سپریم کورٹ جانے کا اعلان آپ فرماچکے ہیں تو یہی کہا جائے گا کہ کمزور تھے تو لڑنے کیوں چلے؟

اسپیکر قومی اسمبلی نے پہلے مرحلے میں 17 جنوری کو 35 ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جن میں 34 کا تعلق تحریک انصاف سے تھا جبکہ ایک عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا تھا۔ ابھی اسی پر بحث جاری تھی کہ گزشتہ روز تحریک انصاف کے مزید 35 ممبران کے استعفے منظور کرلیے گئے۔

عمران خان 27جنوری کو حلف اٹھائیں اور 42 حلقوں میں پھر انتخاب لڑنے کی تیاری کریں۔ ممکن ہے پھر ایک بار 62 حلقوں کی نوبت آجائے۔ دیکھیں گے 16 اگست کو کیا ہوتا ہے ابھی تو پنجاب اسمبلی اسپیکر بنام گورنر جناب بذریعہ چیف سیکرٹری کے مقدمہ کی تیاری کریں مگر آئین کی دفعہ 254 کہتی ہے کہ ’جب کوئی فعل یا امر دستور کی رو سے ایک خاص مدت میں کرنا مطلوب ہو اور اس مدت میں نہ کیا جائے تو اس فعل یا امر کا کرنا صرف اس وجہ سے کالعدم یا غیر مؤثر نہیں ہوگا کہ یہ مذکورہ مدت میں نہیں کیا گیا تھا‘۔

جناب پرویز الہیٰ صاحب! گزشتہ مردم شماری میں پنجاب کی نشستوں میں کمی ہوئی تھی جبکہ تینوں صوبوں کی آبادی بڑھ گئی تھی۔ آپ نے اس کے نتائج پھر حلقہ بندیاں، ملکی مالی مشکلات، ووٹوں کی فہرست، پولنگ اسکیم، اسٹاف کی ٹریننگ اور ایسے ہی دسیوں دوسرے مراحل زندگی بھر عملی طور پر دیکھے ہیں اور اگر کہیں غلطی ہوئی تو راستہ مسدود ہوا، پھر بتائیے کہ گلی سے نکلنے کا راستہ کیا ہوگا؟

تبصرے (0) بند ہیں