مہنگائی کا دباؤ: اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا

اپ ڈیٹ 23 جنوری 2023
گورنر اسٹیٹ بینک پریس کانفرنس کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
گورنر اسٹیٹ بینک پریس کانفرنس کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا جس کے بعد شرح سود 17 فیصد پر پہنچ گئی۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی سے شرح سود 16 فیصد سے بڑھا کہ 17 فیصد کردی گئی ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ میں مہنگائی میں کچھ اعتدال آیا ہے مگر اس کے باوجود بھی بنیادی مہنگائی میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ابھی برقرار ہے کیونکہ جس نئی رقوم کی ہم توقع کر رہے تھے اس میں کچھ تاخیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر مسلسل دباؤ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے عالمی سطح پر معاشی ترقی کی حالیہ پیش گوئی میں تنزلی دکھائی جارہی ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ میں بےیقینی کی صورتحال برقرار ہے تو اس کے اثرات ہماری مارکیٹ پر پڑتے ہیں۔

جمیل احمد نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ بڑھانے کا فیصلہ ملک کی بیرونی اور مالیاتی پوزیشن کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد کیا۔

انہوں نے کہا کہ حقیقی شعبے کی ترقی میں اسٹیٹ بینک نے گزشتہ ماہ اپنی مانیٹری پالیسی میں اس کی پیش گوئی 2 فیصد کی تھی مگر اس وقت توقع ہے کہ بیرونی خسارے کی وجہ سے اس میں کچھ رسک ہے اس لیے تھوڑا تنزلی کا دباؤ آسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شروع میں ہمارا خیال تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 ارب ڈالر تک ہوگا اور برآمدات اور ترسیلات زر میں سست روی کے باوجود اس میں ابتدائی 6 ماہ کے دوران ہماری کارکردگی بہت اچھی ہے جس کے بعد یہ 3.7 ارب ڈالر تک ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم ابھی تک اپنے ہدف کے مطابق چل رہے ہیں، اسی طرح ہماری کوشش ہے کہ اس سال ہم 9 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے تک پہنچیں گے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مرکزی بینک کی مانیٹری پالیس کمیٹی نے زری اور مہنگائی کا تفصیلی تجزیہ بھی کیا اور کمیٹی کا خیال تھا کہ افراط زر کو کم کرنے کے لیےشرح سود میں ایک فیصد اضافہ ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں ہم نے پہلے ہی کردی ہیں اور کچھ ابھی باقی ہیں جس کی وجہ سے بھی ذخائر میں کمی آئی ہے۔

بعد ازاں اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق آج کے اجلاس میں مانیٹری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کا دباؤ برقرار ہے، اس لیے شرح سود 17 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ کمیٹی نے نومبر میں اپنی آخری میٹنگ کے بعد سے تین بڑی اقتصادی پیش رفتوں پر غور کیا جس میں گزشتہ 10 ماہ کے دوران بنیادی افراط زر میں اضافے کا رجحان ظاہر ہونے سے افراط زر کی شرح مسلسل بلند رہنا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پالیسی کی وجہ سے سکڑاؤ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے باوجود بیرونی شعبے کے لیے چیلنجز میں اضافہ اور عالمی اقتصادی اور مالیاتی حالات قریب سے مختصر مدت میں بڑے پیمانے پر بےیقینی رہنا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر اثرات ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں اسٹیٹ بینک کے گورنر نے اعادہ کیا کہ شرح تبادلہ مارکیٹ پر مبنی ہے اور اتار چڑھاو مارکیٹ کے پیرامیٹرز کے اندر ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ درآمدات کو روکنے کے انتظامی اقدامات کی وجہ سے شرح پر دباؤ معمول سے کم تھا۔

جمیل احمد نے کہا کہ ہماری بیرونی فنانسنگ کی ضروریات بہت زیادہ ہیں اور آمد اور اخراج کے درمیان فرق ہے، قیاس آرائیاں کرنے والے اس فرق کو کیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں شرح زیادہ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب آئی ایم ایف سے ہمارا جائزہ مکمل ہوجائے گا اور رقوم موصول ہوجائیں گی تو مارکیٹ میں بہتری آئے گی اور مختلف شرحوں میں فرق ختم ہو جائے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے انکشاف کیا کہ بعض بینکوں نے شرح تبادلہ کے بارے میں قیاس آرائیوں کے ذریعے جنوری سے ستمبر 2022 تک 100 ارب روپے کا منافع حاصل کیا۔

گورنر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے 13 بینکوں کے خلاف انکوائری شروع کی تھی اور مسائل اور بنیادی عوامل کی نشاندہی کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ قیاس آرائیوں میں ملوث بینکوں کے خلاف ریگولیٹری اور مالی دونوں طرح کی کارروائی کی جاسکتی ہے، کارروائی پر مشاورت جاری ہے اور جلد ہی اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ 25 نومبر 2022 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا جس کے بعد شرح سود 16 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔

یہ اعلان مرکزی بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا گیا تھا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا ہے، شرح سود بڑھانے کے فیصلے کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ مہنگائی پائیدار نہ ہوجائے، مالی استحکام کو درپیش خطرات قابو میں رہیں اور اس طرح زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کی جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں