نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈن کا جذباتی الوداع

26 جنوری 2023
نیوزی لینڈی کی وزیراعظم کو الوداع کہنے سیکڑوں شہری جمع ہوگئے—فوٹو:اے ایف پی
نیوزی لینڈی کی وزیراعظم کو الوداع کہنے سیکڑوں شہری جمع ہوگئے—فوٹو:اے ایف پی

نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈن کی طرف سے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد سیکڑوں شہریوں نے انہیں جذباتی انداز میں الوداع کہہ دیا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی’اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ملک کو قدرتی آفات، اب تک کے بدترین دہشت گرد حملہ اور کورونا وائرس میں چلانے کے بعد اب ان کے پاس قیادت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ 21 جنوری کو جیسنڈا آرڈرن کی جانب سے استعفیٰ کے اعلان کے بعد لیبر پارٹی کے رکن پارلیمان کرس ہپکنز کو ملک کا نیا وزیراعظم نامزد کر دیا گیا تھا۔

کرس ہپکنز سے دارالحکومت ولنگٹن میں ایک تقریب کے دوران گورنر جنرل کنڈی کیرو نے حلف لیا تھا جہاں انہوں نے کہا تھا کہ وہ آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے متحرک اور پرجوش ہیں۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’یہ (منصب) میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز اور ذمہ داری ہے۔‘

نئے وزیراعظم کو اب بگڑتی معیشت اور قدامت پسندوں کی بڑھتی ہوئی اپوزیشن کی وجہ سے حکومت کی گرتی ہوئی شہرت کو بحال کرنے کی ٹاسک دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ جیسنڈا آرڈرن گزشتہ روز آخری بار بطور وزیراعظم سامنے آئیں اور پارلیمان کے پاس موجود ملازمین اور شہریوں کی بڑی تعداد کی تالیوں کی گونج میں پارلیمان سے باہر نکلیں۔

شہزاہ ولیم نے سب سے پہلے انہیں مبارکباد پیش کی۔

سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پرنس ولیم نے لکھا کہ ’آپ کی دوستی، قیادت اور حمایت کا شکریہ، کم از کم میری دادی کی موت کے وقت نہیں۔‘

برطانوی وزیراعظم رشی سنک نے بھی جیسنڈا آرڈرن کی شفقت اور مضبوط قیادت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

برطانوی وزیراعظم نے نیوزی لینڈ کے نئے وزیراعظم کرس ہپکنز کے ساتھ بھی کام کرنے کا پیغام دیا۔

  رشی سنکنے ٹوئٹر پر نیوزی لینڈ کے نئے وزیراعظم سے مزاحیہ انداز میں بھی مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’ہمارے ممالک کے درمیان بہت کچھ یکساں ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم جلد ہی ذاتی طور پر اپنی مشترکہ ترجیحات اور شاید برطانوی ساسیج رول پر بات کریں گے۔‘

فوک گلوکار یوسف کیٹ سٹیونسالو نے بھی جیسنڈا آرڈرن کی تعریف کی اور کہا کہ ’ جیسنڈا آرڈرن امن کی حامی تھی جس نے کرائسٹ چرچ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد نیوزی لینڈ کے باشندوں کو ایک ساتھ رکھا۔’

خیال رہے کہ جیسنڈا آرڈرن 2017 میں مخلوط حکومت میں وزیر اعظم بنی تھیں اور پھر 3 برس بعد ہونے والے انتخابات میں انہوں نے اپنی بائیں بازو کی مرکزی جماعت ’لیبر پارٹی‘ کی قیادت کی۔

وزارت عظمیٰ کے دوران انہوں نے مسلمانوں کی 2 مساجد پر دہشت گرد حملے پر اپنے ردعمل اور کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانے کی وجہ سے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی اور دوران اقتدار بچے کو جنم دینے والی دنیا کی دوسری عالمی رہنما بھی بن گئیں۔

تاہم مہنگائی اور جرائم کی بڑھتی شرح کے سبب حالیہ انتخابات میں ان کی پارٹی اور ان کی ذاتی مقبولیت میں بھی کمی آگئی۔

تبصرے (0) بند ہیں