لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے بطور ایڈجنٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔
لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے بطور ایڈجنٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات متنازع اور کشیدہ رہے۔تاہم اب پاکستان اور امریکا ایک بار پھر ان مراسم کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بحالی کے بعد ان دونوں ممالک کے تعلقات کیسے ہوں گے؟

ماضی میں اور بالخصوص 1979ء کی افغان جنگ کی بنیاد پر قائم ہونے والے ان تعلقات میں پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے اتحادی ضرور تھے لیکن دوست کبھی نہیں رہے۔ ان دونوں ممالک کا تعلق نہ صرف لین دین بلکہ معاہدوں پر مبنی تھا۔ دونوں ممالک ان معاہدوں کی تعمیل کے سخت پابند تھے۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات میں تواتر کے ساتھ تناؤ موجود رہا اور اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی۔ ایسا خاص طور پر اس وقت ہوا جب ان دونوں ممالک کی پالیسیاں ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف جاتیں۔

تاہم ان تعلقات کو پاکستان کے عوام نے مسترد کیا کیونکہ ان تعلقات میں امریکا کو ملک کی سیاسی حرکیات اور اس کی ضرورت مند قیادت پر باآسانی اثرانداز ہونے کا اختیار تھا۔

ایسے تعلقات سرد جنگ اور یک قطبی دنیا میں تو چل سکتے ہیں لیکن نئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ امریکا کا ’نہ ختم ہونے والے جنگوں‘ سے باہر نکلنا، عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی قوم پرستی، طاقت کا عدم توازن، ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے اتحاد اور مقابلہ کرتی جغرافیائی سیاست اس نئے نظام کے مظاہر ہیں۔ ممالک کو انتخاب کی ضرورت ہے اور جیسے جیسے بڑی طاقتیں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کریں گی ویسے ویسے ممالک کو اس انتخاب کے مواقع بھی ملیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے مفادات دیرپا ہیں۔ ان مفادات کی اہمیت میں تو اتار چڑھاؤ آتا ہے لیکن اس سے تعلقات متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ امریکا اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اس کے بہت سے مفادات میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ ان مفادات کا تعلق سیکیورٹی خدشات، جغرافیائی سیاست اور عالمی اجارہ داری سے ہے جن میں چین، روس، طالبان، انسدادِ دہشت گردی، جوہری ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ، پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے معاملات شامل ہیں۔

پھر اس حوالے سے پاکستان کے ذاتی مفادات بھی منسلک ہیں۔ اپنی معاشی کمزوریوں، سیاسی عدم استحکام اور اس بات کے احساس کی وجہ سے کہ چین ہمارے ہر درد کی دوا نہیں بن سکتا، پاکستان کو لگتا ہے کہ اب بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ اسے اپنے تعلقات میں تبدیلی لانی چاہیے۔

ایسا کرنے سے پاکستان کو اپنی جغرافیائی سیاسی حیثیت کا بھی ادراک کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان خطے میں موجود امریکا اور بھارت کے تعلقات میں اپنی کچھ جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ امریکا اور بھارت کے تعلقات کا خمیازہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف سمیت دیگر معاملات میں نقصانات کی صورت میں اٹھایا تھا۔

پاکستان اور امریکا دونوں ہی اپنے تعلقات میں آنے والی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن صرف پائیدار، عوامی حمایت اور باہمی مفادات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تعلقات ہی ان دونوں ممالک کے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ امریکا کے کثیر الجہت تعلقات کی وجہ سے اس کے لیے ایک ایسے ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں جنوبی ایشیا سے متعلق امریکا کی پالیسی کا دارو مدار صرف بھارت پر نہ ہو۔

پاکستان کو امریکا-چین کشیدگی، بھارت سے تعلقات اور افغانستان کو جواز بنا کر نہیں بلکہ خود اپنی اہمیت اور مفادات کی بنیاد پر امریکا سے مراسم کو بحال کرنا چاہیے۔ بہ ظاہر واشنگٹن میں ان تینوں معاملات کو ایک طرف کرکے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

بحالی کی صورت میں ابتدائی طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو افغانستان میں استحکام پیدا کرنے، انسدادِ دہشت گردی اور علاقائی امن و سلامتی پر مرکوز کیا جائے گا۔ اس کے لیے مختلف سطحوں اور شعبہ جات میں تعاون کی ضرورت ہوگی جن میں عسکری تعلقات، انٹیلی جنس تعاون اور سیاسی تعلقات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ امریکا کے پاس امدادی پالیسیاں بھی موجود ہوں گی جن سے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان میں امریکا مخالف سوچ کے باعث فی الحال یہ پالیسیاں عملی اور تعلقاتِ عامہ کے پہلوؤں پر مرکوز ہیں۔ امریکا نے حال ہی میں جنسی مساوات اور فلڈ ریلیف کے لیے پاکستان کو 20، 20 کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔

محفوظ اور اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم پاکستان ہی خطے میں سلامتی کے حوالے سے امریکا کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اندرونی استحکام اور توازن پاکستان کی بھی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

پاکستان اور امریکا تجارتی تعاون کو مضبوط کرنے، سرمایہ کاری، زراعت، تعلیم، صحت، ماحول دوست توانائی کے فروغ اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تعاون پر سنجیدہ اقدامات کررہے ہیں۔ پاک-امریکا گرین الائنس کی صورت میں امریکا کی ہائبرڈ اور موسم سے موافق بیجوں، بایوٹیکنالوجی اور مصنوعی انجینیئرنگ میں مہارت ہمارے زرعی شعبے کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔

اقوامِ متحدہ کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے منعقد ہونے والی جنیوا کانفرنس میں پاکستان کو ملنے والی عالمی حمایت کے پیچھے امریکا کا کلیدی کردار تھا۔ اور ایسے میں سندھ طاس معاہدے کے نفاذ میں امریکی مفاد کی بھی امید کی جا سکتی ہے۔

آج بھی ہماری برآمدات کے لیے سب سے بڑا ملک امریکا ہی ہے۔ پاکستان کی برآمدات گزشتہ سال 7 ارب ڈالر سے بڑھ کر 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں جس میں آئی ٹی کے شعبے میں 1 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ ٹیکنالوجی شعبے سے تعلق رکھنے والے امریکی سرمایہ کار اور دیگر سرمایہ دار پاکستان کے اسٹارٹ اپ ایکوسسٹم میں سرمایہ کاری کرکے قسمت آزمارہے ہیں۔ اور تقریباً لاکھوں پاکستانی امریکی شہری اس سیاسی اثرورسوخ سے مستفید ہو رہے ہیں جو ان دونوں کے باہمی تعلقات میں اہم اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

پاک-امریکا تعلقات بہت سے مقاصد کو پورا کریں گے۔ لیکن واشنگٹن کے لیے سب سے اہم مقصد یہ ہوسکتا ہے جس کے تحت یقینی بنایا جائے کہ پاکستان کی چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری اور بھارت کے ساتھ متنازع تعلقات، امریکا کی انڈو-پیسیفک حکمتِ عملی پر اثرانداز نہ ہو۔

تمام ممالک کے ساتھ مراسم ایک جیسے تو نہیں ہوتے لیکن پھر بھی وہ اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ناگزیر ہوسکتے ہیں لیکن امریکا کے ساتھ تعلقات بھی اس وقت ضروری ہیں۔


یہ مضمون 2 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں