کالعدم ٹی ٹی پی کے خطرے پر قابو پانے کیلئے ایران، افغانستان سے مدد لینے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 05 فروری 2023
کابل بھیجا جانے والا وفد افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کرتے گا — فائل فوٹو: دفتر خارجہ
کابل بھیجا جانے والا وفد افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کرتے گا — فائل فوٹو: دفتر خارجہ

حکام نے کہا ہے کہ پاکستان، پشاور کی ایک مسجد میں متعدد پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد افغانستان کے طالبان کے سپریم لیڈر سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کو قابو کرنے کے لیے کہے گا۔

ڈان اخبار میں شائع ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں حملوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے، جہاں عسکریت پسند حملے کرنے اور پکڑے جانے سے بچنے کے لیے ناہموار علاقوں کا استعمال کرتے ہیں۔

حکام نے 30 جنوری کو پشاور میں ہونے والے دھماکے کا ذمہ دار کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک دھڑے کو ٹھہرایا ہے جس نے پولیس کمپاؤنڈ کے اندر واقع ایک مسجد میں 100 سے زائد افراد کی جانیں لی تھیں۔

ٹی ٹی پی، افغان طالبان کے ساتھ مشترکہ نسب اور نظریات کا اشتراک کرتی ہے، جس کی قیادت ہیبت اللہ اخوندزادہ کرتے ہیں جو جنوبی شہر قندھار میں اپنے ٹھکانے سے احکامات جاری کرتے ہیں۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ وفود تہران اور کابل بھیجے جائیں گے تاکہ ’ان سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہا جائے کہ دہشت گرد ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کریں‘۔

خیبرپختونخوا میں ایک پولیس عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ کابل بھیجا جانے والا وفد ’اعلیٰ قیادت سے بات چیت کرے گا اور جب کہتے ہیں کہ اعلیٰ قیادت، تو اس کا مطلب افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ ہیں‘۔

تاہم خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر افغان طالبان نے فوری طور پر کوئی بیان نہیں دیا۔

البتہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے چند روز قبل پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ دوسروں پر الزام نہیں لگانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں اپنے گھر کے اندر کے مسائل کو دیکھنا چاہیے اور افغانستان پر الزام نہیں لگانا چاہیے‘۔

افغانستان میں 20 سالہ امریکی مداخلت کے دوران اسلام آباد پر اکثر افغان طالبان کی خفیہ مدد کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا لیکن جب سے 2021 میں انہوں نے کابل پر قبضہ کیا، پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات میں تناؤ آ گیا جس کی ایک وجہ کالعدم ٹی ٹی پی کا دوبارہ ابھرنا بھی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق طالبان حکومت کے پہلے سال کے دوران پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو زیادہ تر افغانستان اور ایران سے متصل سرحدی علاقوں میں ہوئے۔

مئی 2022 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کالعدم ٹی ٹی پی نے طالبان کے قبضے کی وجہ سے افغانستان میں تمام غیر ملکی انتہا پسند گروپوں میں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا‘۔

گزشتہ برس کابل نے اسلام آباد اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مابین بات چیت میں ثالثی فراہم کی تھی لیکن متزلزل جنگ بندی ختم ہوگئی۔

تبصرے (0) بند ہیں