انٹربینک میں روپے کی قدر میں ایک روپے 28 پیسے کا اضافہ، ڈالر 275 روپے کا ہوگیا

اپ ڈیٹ 06 فروری 2023
کومل منصور نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کے بعد برآمد کنندگان نے اپنے ڈالرز پاکستان لانا شروع کر دیے ہیں— فائل فوٹو: ڈان آرکائیوز
کومل منصور نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کے بعد برآمد کنندگان نے اپنے ڈالرز پاکستان لانا شروع کر دیے ہیں— فائل فوٹو: ڈان آرکائیوز

انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز ڈالر ایک روپے 28 پیسے کم ہوکر 275 روپے 30 پیسے کی سطح پر آگیا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں آج ڈالر 0.46 فیصد یا ایک روپے 28 پیسے سستا ہونے کے بعد 275 روپے 30 پیسے پر بند ہوا، جو گزشتہ ہفتے کے آخری کاروباری روز 276 روپے 58 پیسے پر بند ہوا تھا۔

ٹریس مارک کی سربراہ کومل منصور نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کے بعد برآمد کنندگان نے اپنے ڈالرز پاکستان لانا شروع کردیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، جب تک تاجروں کو خاص طور پر زرمبادلہ کے ذخائر اور ڈالرز کی آمد کے حوالے سے صورتحال بہتر ہونے کا اعتماد نہیں ہوگا، روپے کی قدر میں کمی جاری رہے گی، چاہے اس کی کوئی بھی سطح ہو۔

کرنسی ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہا کہ انٹربینک میں یہ کمی متوقع تھی، برآمدکنندگان نے پیسے روکے ہوئے تھے، آج جیسے ہی مارکیٹ کھلی ہے، ڈالرز آنا شروع ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بھی عنقریب کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ ہم نے ان کی تقریباً ساری شرائط مان لی ہیں، یہ بھی مثبت بات ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مارکیٹ اور نیچے آئے گی، عنقریب ڈالر کی قیمت 250 سے 260 کے درمیان آنے کی امید ہے۔

ظفر پراچا نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے منفی اثرات بہت زیادہ آئیں گے لیکن آئی ایم ایف میں جانا بھی ہماری مجبوری ہے، اگر ہم آئی ایم ایف پروگرام میں جاتے ہیں تو 35 فیصد مہنگائی ہوگی، نہیں جاتے تو 70 فیصد مہنگائی ہوگی اور پھر سری لنکا کی طرح ہمارا حال خراب ہوجائے گا جبکہ ہمارے ہمسایہ ممالک ہمارے خلاف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب معاشی طور پر ہم کمزور ہوں گے تو ملک میں دہشت گردی مزید بڑھ سکتی ہے، اس وقت بہت زیادہ سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے، معیشت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، کم از کم 20 سال کے لیے میثاق معیشت ہونی چاہیے، سیاست دان، عدلیہ، فوج اور کاروباری حلقے کے لوگوں کو مل کر میثاق معیشت کریں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے بعد 27 جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے میں زرمبادلہ کے ذخائر 16 فیصد مزید کم ہو کر 3 اب 9 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئے تھے جن سے بمشکل صرف 3 ہفتوں سے بھی کم کی درآمدات کی ادائیگیاں ہوسکتی ہیں۔

مقامی سرمایہ کاری فرم عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کے مطابق ذخائر فروری 2014 کے بعد کم ترین سطح پر ہیں اور صرف 18 روز کی درآمدات کی ادائیگیاں پوری کرنے کے قابل ہیں جو 1998 کے بعد سے کم ترین مدت ہے۔

اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود ذخائر 5 ارب 65 کروڑ ڈالر ہیں جس کے ساتھ ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب 74 کروڑ ڈالر رہ گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں