لکھاری مصنف ہیں۔
لکھاری مصنف ہیں۔

دکھ کی اس گھڑی میں ہمیں اپنے ترک اور شامی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جنہوں نے خوف ناک زلزلوں اور شدید آفٹرشاکس کے سلسلوں کا سامنا کیا ہے۔ ہمیں ایسا اس لیے بھی کرنا چاہیے کیونکہ 2010ء کے تباہ کُن سیلاب کے دوران ترک عوام بھی ہماری مدد میں پیش پیش تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب ترک صدر رجب طیب اردوان کی اہلیہ نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے اپنا قیمتی ہیرے کا ہار عطیہ کیا تھا۔ پاکستان کی ایک اعلیٰ شخصیت کی اہلیہ جنہوں نے اس ہار کو اپنے ذاتی توشہ خانے میں شامل کرلیا تھا، شاید اب اپنے زیورات ترکی اور شام میں بےگھر متاثرین کو عطیہ کرنا چاہیں۔

پاکستان میں بھی کچھ فالٹ لائنز موجود ہیں جن پر اس نے بہت مشکل سے ہی توازن برقرار رکھا ہوا۔ ہم روزانہ اس دو قومی نظریے کا تجربہ کرتے ہیں جو ان فالٹ لائنز کو مزید وسیع کررہا ہے اور ہمیں تقسیم کررہا ہے۔

ہم1947ء میں آزاد ہوئے تو ہمیں ایک ملک ملا جس میں دو قومیں آباد تھیں۔ ملک کے مشرقی بازو کی اپنی الگ ثقافت، زبان اور نظریہ تھا جبکہ دوسری جانب مغربی حصہ تھا جو سماجی طور پر مختلف قوموں، ثقافتوں، مقامی زبانوں اور روایات کے حامل صوبوں کے کمزور الحاق پر مشتمل تھا۔

1971ء میں مغربی پاکستان کے 4 صوبے ماندہ پاکستان بن گئے لیکن یہاں بھی 2 قومیں تھیں، ایک ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور دوسری وہ جو اس جماعت کی حامی نہیں تھی۔ اشرافیہ تو اعلیٰ درجے کی روٹی، ڈیزائنر کپڑے اور مکان (جو عموماً بیرونِ ملک ہوتے تھے) سے لطف اندوز ہوتی رہی جبکہ نچلا طبقہ اس امید میں جیتا رہا کہ بھٹو کے جانشین آئیں گے اور ان کی جانب سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں گے۔

جنرل ضیا الحق کے دور نے ہمیں ایک بار پھر احساس دلایا کہ اس ملک میں دو قومیں ہیں، ایک کا دارالحکومت راولپنڈی تھا جبکہ دوسرے کا اسلام آباد۔

آج ملک میں ایک بار پھر دو الگ قومیں ہیں، ایک قوم پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما جناب عمران خان کی ہے جبکہ ان کے علاوہ رہ جانے والے دوسری قوم ہیں۔ ڈاکٹر بی آر امبیدکر نے اپنی کتاب ’پاکستان اور پارٹیشن آف انڈیا‘ (1945ء) میں قائدِاعظم اور مہاتما گاندھی کے درمیان پہلے کبھی ہونے والے مناظرے کا ذکر کیا ہے۔ جناح اور گاندھی کے ناموں کو اگر آج کے سیاسی مخالفین کے ناموں سے تبدیل کرلیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ دو قومیں کیسے وجود میں آتی ہیں۔ ’گاندھی اور جناح اپنے اپنے پویلین کو لوٹ گئے ہیں جیسے کرکٹ کا میچ ختم ہونے پر کھلاڑی لوٹ جاتے ہیں۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ آیا یہ دوبارہ ایک دوسرے سے ملیں گے بھی یا نہیں۔ آگے کیا ہوگا یہ سوال ان کے لیے پریشانی کا باعث نہیں‘۔

ان دونوں مخالفین کے پاس دو متبادل تھے، یا تو وہ خود آپس میں کوئی معاہدہ یا اتفاق کرلیں یا پھر ثالثی کا راستہ اختیار کریں۔ بالکل آج کے دور کی طرح، معاہدہ ناممکن لگ رہا تھا۔ ثالثی میں تیسرے فریق کو شامل کرنے کی ضرورت تھی جسے آج کی جدید سیاسی زبان میں نیوٹرل امپائر کہا جاتا ہے۔

دو قوموں والی یہ بات مذہب پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں سنی اور شیعہ دو بڑے مکاتبِ فکر ہیں۔ جبکہ اقلیتیں جن کی ہمارے جھنڈے میں سفید رنگ سے نمائندگی کی گئی ہے شاید اب کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔

ہمارے ملک میں غیرمساوی تعلیمی نظام سے بھی دو قومیں سامنے آتی ہیں، ایک انگریزی زبان بولنے والا امیر طبقہ اور دوسرا اردو زبان بولنے والے عوام۔ ہمارے تعلیمی ماہرین آئین کی 18ویں ترمیم میں کیے گئے وعدوں کو فراموش کرچکے ہیں۔ یہ ترمیم اپریل 2010ء میں پارلیمان نے اتفاقِ رائے سے منظور کی تھی۔ اگر اس کا اطلاق ہوتا تو آج پاکستان میں ہر 13 سالہ بچہ ثانوی سطح پر مفت تعلیم حاصل کررہا ہوتا۔

صوبوں کو ’نصاب، منصوبہ بندی، پالیسی، تعلیمی معیار اور سینٹرز آف ایکسیلنس‘ پر توجہ دینی چاہیے تھی لیکن یہ سب کہاں ہوا؟ اگر ہوا تو کس صوبے میں؟

ہمارے ملک میں ایک قوم وہ ہے جس کے پاس سب کچھ ہے اور ایک وہ جس کے پاس کچھ نہیں۔ اگر مہنگائی اسی تیزی سے بڑھتی رہی تو جن کے پاس کچھ نہیں ہے وہ ان لوگوں کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے جن کے پاس سب کچھ ہے۔

ہمارے ملک پر حکمرانی بھی دو قومیں کرتی ہیں، ایک سویلین جبکہ دوسری وردی والی۔ دونوں کے اپنے قوانین، معیشت، اپنے بجٹ اور اپنی ملکی اور خارجہ پالیسیاں ہیں۔

حال ہی میں کراچی میں ہونے والے جنرل پرویز مشرف کے جنازے نے ظاہر کیا کہ ایک قوم نے ان کی تدفین تمام فوجی اعزازات کے ساتھ کی جبکہ اسلام آباد میں موجود قیادت نے ان کے جنازے میں حکومت کی نمائندگی کے لیے کسی رہنما کو نہیں بھیجا۔ حتیٰ کہ صدر نے بھی ان کے جنازے میں شرکت نہیں کی۔ اس معاملے میں ملکہ الزبتھ دوم خوش قسمت رہیں کیونکہ ہمارے وزیراعظم ان کے جنازے میں شرکت کے لیے لندن گئے تھے۔

لیکن ہم اپنے تمام آنے اور جانے والے لیڈروں کے ساتھ ایسا ہی تو کرتے آئے ہیں۔ خلیل جبران کے بقول، ’افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے اور رخصت گالم گلوچ سے کرے۔‘

اب الوداع کہنے کا ذکر ہوا ہے تو ہم نے حالیہ دونوں میں اپنے ملک کی دو عظیم شخصیات کو خیرباد کہا۔ اردو ادب کے معروف شاعر امجد اسلام امجد 10 فروری کو دنیا سے رخصت ہوئے جبکہ 13 فروری کو ضیا محی الدین کے انتقال کے ساتھ ہی جیسے مستقبل کے ادبی میلے خاموش ہوگئے۔ دونوں شخصیات کو ہی ان کی یاد میں لکھی جانے والی کسی شاعری یا تحریر کی ضرورت نہیں۔ ان کی تخلیقی زندگی ہی ان کی یادگار کا کام کرے گی۔

شاعری دکھ کے اظہار کی زبان ہے۔ امجد صاحب کی ایک دل سوز نظم (جو ہائیکو کی طرح ہے) اور مستقبل کی پیش گوئی کرتی نظر آتی ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے ’آندھی تو ان پڑھ ہے‘ جس کا ایک مصرعہ ہے کہ ’لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے، مگر آندھی تو ان پڑھ تھی‘۔

آندھی کی طرح، موت بھی ان پڑھ ہے۔


یہ مضمون 16 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں