رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

اطالوی ساحل کلابیریا کے قریب کشتی ڈوبنے کے واقعے میں تقریباً 60 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔ اتوار کے روز جب ریسکیو آپریشن جاری تھا تب ڈوبنے والی کشتی کے چند لکڑی کے ٹکڑے تیرتے ہوئے ساحل پر آگئے۔ کشتی میں سوار 150 افراد (اگرچہ ریسکیو اہلکاروں کی تعداد اس سے زیادہ بتا رہے ہیں) میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

پانی سے نکالی جانے والی لاشوں میں ایک نومولود کی لاش بھی شامل ہے۔ اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے لوگ ساحل پر کمبل میں لپٹے ٹھٹھرتے نظر آئے۔ وہ اس وقت اپنے مستقبل کے حوالے سے جس قدر بے یقینی کا شکار تھے اتنا شاید وہ یہ خطرناک سفر شروع کرنے سے قبل بھی نہیں ہوں گے۔

چھوٹے سے اطالوی قصبے کروٹون کے قریب چٹانوں سے ٹکرا کر ڈوبنے والی کشتی نے لامپیدوسا نامی جزیرے تک پہنچنے کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا وہ کلابیرین روٹ کہلاتا ہے اور یہ تارکیںِ وطن افراد کی جانب سے استعمال بحیرہِ روم میں استعمال کیے جانے والے دیگر راستوں سے مختلف ہے۔

وہ روایتی راستے انسانی اسمگلنگ کے لیے بدنام ہیں۔ ان راستوں پر اب اطالوی سرحدی محافظوں کی جانب سے سخت پولیسنگ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے تارکینِ وطن افراد کے چھپ کر اٹلی میں داخل ہونے کے امکانات تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسمگلرز اور ہجرت کرنے والے افراد اب کلابیرین روٹ کا انتخاب کرتے ہیں جیسا کہ اس بدقسمت کشتی نے کیا۔ فلاحی اداروں کے مطابق اس حقیقت کے باوجود کہ یہ راستہ پُرخطر ہے، یہاں سے گزرنے والی کشتیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ سفر ترکیہ سے شروع ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں اور ان میں چھپ جاتے ہیں۔

عموماً ان کشتیوں میں 100 سے 150 افراد کو سوار کرلیا جاتا ہے۔ یہاں وہ کئی دنوں تک ہول ناک حالات کا سامنا کرتے ہیں جہاں انہیں کھانے پینے کی اشیا بھی بہت کم فراہم کی جاتی ہیں جبکہ انہیں بیت الخلا کی بہتر سہولت بھی میسر نہیں ہوتی۔ درحقیقت اس حوالے سے رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سفر کے دوران ان تارکینِ وطن افراد کے پاس ’سمندری پانی میں چینی ملا کر‘ پینے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا۔

یہ کشتیاں یونانی جزیروں کے گرد چلتی ہیں اور آخرکار اٹلی کے کلابیرین علاقے اور کروٹون جیسی ساحلی چوکیوں تک پہنچتی ہیں۔ اگر ان کی قسمت اچھی ہو اور وہ آدھی رات کے بعد کسی پہر یہاں پہنچیں تو ان غریب، پریشان حال افراد کا یہ انسانی کارگو اطالوی اہلکاروں کی نظروں میں آئے بغیر اٹلی میں داخل ہوجاتا ہے۔

اس کے برعکس بدقسمت کشتیاں سمندر میں ہی حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کشتی میں سوار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں یا پھر دوسری صورت میں حکام کی جانب سے پکڑے جانے پر ان لوگوں کے بہتر مستقبل کا خواب ہمیشہ کے لیے چکناچور ہوجاتا ہے۔

طالبان حکومت کی وجہ سے ملک سے فرار ہونے والے ایک افغان مہاجر نے کہا کہ اس نے کشتی پر جن حالات کا سامنا کیا ویسے خراب حالات اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے۔

لیکن تارکینِ وطن کو پیش آنے والی ان تمام مشکلات کو دیکھتے ہوئے بھی لوگ اپنی قسمت آزمانے سے باز نہیں آتے۔ اب تارکینِ وطن کے لیے جانے والی کئی کشتیاں ان راستوں سے گزرتی ہیں جبکہ تباہ شدہ کشتیوں کا ملبہ کلابیرین کے ساحلِ سمندر پر قطار میں موجودنظر آتا ہے۔

یہ صورتحال تشویش ناک ہے کہ پاکستانی اپنے ملک کے مستقبل کے حوالے سے اس قدر مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ ان حالات سے بچ نکلنے کے لیے اس جیسے خطرناک راستوں کا انتخاب کرنے پر بھی آمادہ ہیں۔ یہ بیرونِ ملک جانے کا کوئی سستا طریقہ بھی نہیں ہے کیونکہ اسمگلر بالغ شخص کے لیے 10 ہزار جبکہ بچوں کے لیے ساڑھے 4 ہزار ڈالر کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔

وہ لوگ جو حکام کی نظروں میں آئے بغیر سمندر پار پہنچ جاتے ہیں وہ پکڑے جانے کے مسلسل خوف میں غیرقانونی طریقے سے زندگی گزارتے ہیں اور اٹلی میں سخت ترین ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ خالی آنکھوں اور تاثرات سے عاری چہروں کے ساتھ روم یا اٹلی کے دیگر شہروں میں سیاحوں کو چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ یہ ہرگز ویسی زندگی نہیں ہوتی جس کے خواب انہوں نے دیکھے تھے۔

حال ہی میں اٹلی پہنچنے والے پاکستانیوں کے انٹرویوز پر مبنی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اکثریت کا سفر پاکستان سے شروع ہوتا ہے اور وہ ایران، افغانستان، بالقان اور پھر یونان سے گزرتے ہوئے اٹلی پہنچتے ہیں۔ ان میں سے نصف سے زائد نے موقف اپنایا کہ انہوں نے تشدد اور تنازعات کی وجہ سے ملک چھوڑا جبکہ 36 فیصد نے آزادی اور حقوق کی عدم فراہمی کو ہجرت کرنے کی وجہ بتایا۔ 33 فیصد نے کہا کہ انہوں نے معاشی وجوہات کی وجہ سے ہجرت کی۔

70 فیصد سے زائد نے کہا کہ انہیں پاکستان سے اٹلی کا سفر کرنے میں ایک سال سے زائد کا وقت لگا اور 88 فیصد نے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اسمگلرز کی ’خدمات‘ حاصل کیں۔ ان مہاجرین کی بڑی تعداد نے موقف اپنایا کہ اسمگلرز نے انہیں سفر کی مشکلات، دورانیے اور نوعیت کے حوالے سے درست رہنمائی فراہم نہیں کی تھی۔

اس تحقیق میں ایک اور تشویش ناک عنصر جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ جن پاکستانیوں کے انٹرویوز کیے گئے ہیں ان میں سے 75 فیصد نے کہا کہ عدم تحفظ کے احساس اور انسانی آزادی اور حقوق کی عدم فراہمی کے حوالے سے وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے جس کے باعث انہوں نے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ لیا۔ اس طرح کے اعدادوشمار پر پاکستان کے قائدین کو غور کرنا چاہیے۔

ذرا تصور کریں کہ وہ لوگ کس قدر مایوس ہوں گے کہ جو انسانی اسمگلروں کی خدمات حاصل کرکے غیرقانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کی کوشش کریں اور بلآخر ایسی کشتی پر سوار ہوں جسے ڈوبنے کا خطرہ ہو۔ ملک کی یہ صورتحال انتہائی پریشان کُن ہے کہ یہاں امیر طبقہ تو آرام و آسائش کی زندگی گزار رہا ہے جبکہ غریب طبقہ اس قدر ناامید ہے کہ وہ اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگانے کو تیار ہے۔

پاکستان میں شرمندگی کا عنصر ہی پایا نہیں جاتا۔ یہاں امیر طبقہ جس نے حکومت میں بدعنوانی کی ہو یا عوام کو دھوکا دیا ہو وہ کبھی بھی شاندار پارٹیز کی میزبانی کرنے میں برا محسوس نہیں کرتا جبکہ ان سے چند ہی میٹر کے فاصلے پر موجود افراد اپنے حالات میں بہتری کے لیے ترس رہے ہیں۔

یہ حقیقت کہ پاکستانی شہری بیرونِ ملک جانے کے لیے صومالیہ اور افغانستان کے شہریوں کی طرح ہر قسم کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں، کافی حد تک واضاحت کرتی ہے کہ آج ہمارا ملک کن حالات سے دوچار ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ دنیا ہماری گرتی ہوئی کرنسی، ہمارے مصیبت زدہ غریبوں اور ہماری زوال پذیر اخلاقیات کو دیکھتی ہے اور صرف افسوس سے اپنا سر ہلاتی ہے۔

آج کے دور میں پاکستانی کہلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ شرمندگی اور احساس نام کی چیزوں سے عاری ہوں اور دیگر پاکستانیوں کے مصائب کو آپ جان بوجھ کر نظرانداز کریں جوکہ بہتر مستقبل کی امید کی چھوٹی سی کرن کی خاطر دیارِغیر جانے کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔


یہ مضمون 1 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں