’پرویز الہٰی کو پی ٹی آئی میں جانے کیلئے کال کی یا نہیں؟‘ مسلم لیگ (ق) کا جنرل (ر) باجوہ سے وضاحت کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2023
چوہدری سالک حسین نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ کو خود کال کرنے کی وضاحت کرنی چاہیے—فائل فوٹو: اے ایف پی/ٹوئٹر
چوہدری سالک حسین نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ کو خود کال کرنے کی وضاحت کرنی چاہیے—فائل فوٹو: اے ایف پی/ٹوئٹر

وفاقی وزیر و رہنما مسلم لیگ (ق) چوہدری سالک حسین نے مطالبہ کیا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ وضاحت پیش کریں کہ انہوں نے پرویز الہٰی کو تحریک انصاف میں جانے کے لیے کال کی یا نہیں؟

ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سربراہ مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے چوہدری سالک حسین نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ کو خود کال کرنے کی وضاحت کرنی چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ پرویز الہٰی نے کہا وہ عمران خان سے ملاقات کرکے ہمیں بتائیں گے، انہوں نے بنی گالا جانے کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا ہم سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے چوہدری شجاعت کو تحریک انصاف میں جانے کا کہا۔

پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے سالک حسین نے سی پیک منصوبے میں تاخیر کا ذمہ دار تحریک انصاف کو قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کابینہ ارکان نے سی پیک منصوبے میں تاخیر کا کہا، اداروں کے سربراہان نے کابینہ اجلاس میں بتایا کہ تحریک انصاف کے کابینہ اراکین نے یہ ہدایت جاری کر رکھی تھی، ان سابق کابینہ اراکین کے نام بتانا مناسب نہیں لیکن کابینہ میں ان کے نام سامنے آ چکے ہیں۔

مکمل پروگرام آج شام 7 بجے نشر کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 21 فروری کو پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر چوہدری پرویز الہٰی اپنے 10 سابق اراکین صوبائی اسمبلی کے ساتھ پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔

قبل ازیں گزشتہ برس دسمبر میں پرویز الہٰی کے صاحبزادے مونس الہٰی نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر جاری تنقید کو زیادتی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر جنرل باجوہ نے ان کی جماعت کو تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا تھا۔

پسِ منظر

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے سابق صدر پنجاب پرویز الہٰی اور مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین کے درمیان گزشتہ برس پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے۔

مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور مرکزی سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ سمیت متعدد اراکین قومی اسمبلی نے شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کا ساتھ دیا تھا جبکہ پرویز الہٰی اور اراکین صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی کی حمایت کی تھی۔

بعد ازاں پی ٹی آئی نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا اور پرویز الہٰی کی قیادت میں چند پارٹی اراکین نے چوہدری شجاعت کو مسلم لیگ (ق) کی صدارت سے ہٹانے کا اعلان کیا، تاہم الیکشن کمیشن نے چوہدری شجاعت حسین کو برقرار رکھا۔

اس دوران میڈیا میں رپورٹ کیا گیا کہ چوہدری پرویز الہٰی مسلم لیگ (ق) کو پی ٹی آئی میں ضم کرنے جا رہے ہیں اور دوسری طرف کہا گیا کہ مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی عام انتخابات میں اتحاد کریں گی۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) نے چوہدری پرویز الہٰی کو پارٹی ضم کرنے کے بیان پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کی بنیادی رکنیت معطل کردی تھی۔

مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے چوہدری پرویز الہیٰ کو جاری کردہ شوکاز نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ اس حوالے سے چلنے والی خبروں کے حوالے سے مرکزی صدر چوہدری شجاعت نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اس اقدام کا سختی سے نوٹس لیا کہ صوبائی صدر پارٹی کو کسی دوسری جماعت میں ضم نہیں کر سکتا۔

شوکاز نوٹس میں چوہدری پرویز الہٰی سے غیر آئینی اور غیرقانونی اقدام کی وضاحت طلب کی گئی تھی۔

پارٹی کی طرف سے شوکاز میں لکھا گیا تھا کہ ’پاکستان مسلم لیگ بحیثیت سیاسی جماعت اپنا تشخص، ووٹ بینک، پارٹی ڈسپلن اور منشور و ضابطہ رکھتی ہے جس کی خلاف ورزی آپ کے رات گئے میڈیا کو دیے گئے بیانات سے معلوم ہوتی ہے اور اس بنا پر آپ کو 7 دن کا شوکاز نوٹس دیا جاتا ہے۔‘

نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ آپ (پرویز الہٰی) سات دن کے اندر اپنے اس غیرآئینی اقدام کی وضاحت دیں ورنہ آپ کے خلاف پارٹی آئین کے آرٹیکل 16 اور آرٹیکل 50 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ تاہم آپ کی وضاحت تک پارٹی سے آپ کی بنیادی رکنیت معطل کی جاتی ہے۔

مسلم لیگ (ق) نے پرویز الہٰی کی رکنیت ختم کردی

چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے پی ٹی آئی میں شمولیت کے اعلان سے قبل مسلم لیگ (ق) کے مرکزی صدر چوہدری شجاعت کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کے نام جاری خط میں ان کی پارٹی رکنیت کے خاتمے کی اطلاع دی گئی تھی۔

چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے جاری خط میں کہا گیا کہ 16 جنوری 2023 کو پارٹی کی بنیادی رکنیت معطلی سے متعلق شوکاز نوٹس بھیج کر پاکستان مسلم لیگ کو دوسری جماعت میں ضم کرنے کی بابت جواب طلب کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ کوئی بھی صوبائی صدر ایسا فیصلہ آئینی طور پر نہیں کرسکتا ہے، ایسے بیانات سے جماعت کا تشخس اور ساکھ متاثر ہوئی اور آپ سے 7 روز میں وضاحت مانگی گئی لیکن کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔

مسلم لیگ (ق) کے صدر نے چوہدری پرویز الہٰی کو مخاطب کرکے کہا کہ 26 جنوری 2023 کو آپ کی سرکردگی میں لاہور میں ایک جعلی اور غیر آئینی اجلاس بلا کر پارٹی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی اور مرکزی قیادت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے قیادت کو برخاست کرنے کی مذموم کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ آپ کے اس اقدام نے جماعت کو بے پناہ نقصان پہنچیا، پہلے شوکاز نوٹس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بار پھر پارٹی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی کی اور اپنی انفرادی ذات کو پارٹی کے منشور اور قواعد و ضوابط سے ماورا سمجھ کر ایک اور سنگین غلطی کی ارتکاب کیا۔

چوہدری شجاعت حسین نے پرویز الہٰی کو خط میں لکھا کہ پاکستان مسلم لیگ کے پارٹی آئین 2006 کے تحت جماعت کی بنیادی رکنیت برخاست کی جاتی ہے اور مزید جتنے عہدے آپ نے پارٹی رکنیت کی حیثیت سے حاصل کے اس کو کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔

چوہدری پرویز الہٰی کو مسلم لیگ (ق) کی جانب سے بتایا گیا کہ آئندہ کسی بھی لحاظ سے اپنے آپ کو پارٹی سے منسلک نہ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں