پولیس کریک ڈاؤن میں پی ٹی آئی کارکن کی ہلاکت، تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2023
پی ٹی آئی کی جانب سے ہلاک کارکن علی بلال کی شیئر کی گئی ایک تصویر— فوٹو: پی ٹی آئی
پی ٹی آئی کی جانب سے ہلاک کارکن علی بلال کی شیئر کی گئی ایک تصویر— فوٹو: پی ٹی آئی

پنجاب حکومت نے لاہور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ریلی پر کریک ڈاؤن کے دوران ایک کارکن کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی۔

8 مارچ کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق انسپکٹر جنرل پنجاب (آئی جی) پولیس ہمایوں بشیر تارڑ نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپوں کے واقعات بالخصوص پی ٹی آئی کے ایک کارکن علی بلال کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب پولیس نے ان کے کارکن علی بلال کو قتل کیا ہے۔

پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ لاہور میں گزشتہ روز عدلیہ کی حمایت کے لیے ریلی نکال جائے گی لیکن نگران صوبائی حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی تھی۔

بعدازاں پولیس اہلکاروں نے پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا تھا اور انہیں منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپوں کا استعمال کیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین نے ریلی کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

عمران خان نے علی بلال کی موت میں پولیس کے ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کی تھی، جس میں ان کے مطابق گزشتہ روز پولیس اسٹیشن لے جاتے ہوئے کارکن کو زندہ دکھایا گیا تھا، انہوں نے کارکن کے جسد خاکی کی ایک تصویر بھی شیئر کی جس میں اس کے ماتھے پر خون کی لکیر دیکھی جا سکتی ہے۔

تحقیقاتی ٹیم میں پنجاب ایلیٹ پولیس فورس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل صادق علی اور لاہور کیپیٹل سٹی ڈسٹرکٹ انٹرنل احتساب بیورو کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس عمران کشور شامل ہیں۔

آئی جی نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ گواہوں کے بیانات اور واقعے کی تمام ممکنہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور ویڈیو کلپس اکٹھے کر کے تین دن کے اندر رپورٹ پیش کرے۔

نوٹیفکیشن میں 7 سوالات درج ہیں جن کی تحقیقات کمیٹی کو سونپ دی گئی ہے اور ان میں سے چار خاص طور پر بلال کی موت سے متعلق ہیں۔

آئی جی پنجاب نے پوچھا کہ وہ کون سے حالات تھے جن کی وجہ سے بلال کی موت واقع ہوئی اور ان کی موت کب اور کہاں ہوئی؟ انہوں نے سوال کیا کہ جیسا کہ سوشل میڈیا پر رپورٹ کیا جا رہا ہے کیا بلال پولیس کی حراست میں تھے۔

کمیٹی اس بات کی بھی تحقیقات کرے گی کہ مقتول بلال علی کو ہسپتال کون لے کر گیا اور گاڑی کا رجسٹریشن نمبر کیا تھا۔

اس سلسلے میں یہ بھی پتا لگایا جائے گا کہ کیا وہ لوگ جو اسے ہسپتال لے کر آئے تھے وہ اسے میڈیکل ٹیم کے پاس لے گئے تھے اور انہوں نے اپنے ٹھکانے کا بتایا تھا اور جاں بحق شخص کی میت کو کہاں سے اٹھایا گیا تھا۔

کمیٹی ریلی کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ یہ جاننے کی بھی کوشش کرے گی کہ پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان تصادم کی وجہ کیا تھی۔

کمیٹی واقعے کے دوران زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کی تعداد کا بھی پتا لگانے کی کوشش کرے گی۔

ڈی ایس پی نے بلال کی ہلاکت کی ایف آئی آر درج کر لی

لاہور کے ریس کورس تھانے کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) صابر علی نے بدھ کو رات گئے ایف آئی آر درج کر لی جس میں الزام عائد کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ایک پرتشدد ہجوم نے پولیس اہلکاروں پر پتھروں اور لاٹھیوں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں بلال کی موت ہو گئی۔

ایف آئی آر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7، دفعہ 147، 186، 188، 290، 291، 302، 324، 353 اور 427 کے تحت درج کی گئی۔

شکایت کنندہ نے کہا کہ جب پولیس نے دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے پارٹی کارکنوں سے منتشر ہونے کا کہا تو انہوں نے پتھراؤ شروع کر دیا اور 13 پولیس اہلکاروں کے نام بتائے جو حملے میں زخمی ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب زخمی پولیس اہلکاروں کو علاج کے لیے سروسز ہسپتال لایا گیا تو پتا چلا کہ پی ٹی آئی کے زخمی کارکنوں کو بھی اسی ہسپتال میں لایا گیا ہے۔

ڈی ایس پی نے کہا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک کارکن کی موت ہو گئی ہے، جس کی شناخت علی بلال کے نام سے ہوئی اور پی ٹی آئی کے 6 دیگر کارکن بھی زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے تین سرکاری گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔

تبصرے (0) بند ہیں