ثابت ہو چکا کوئی جماعت پاکستان کو درپیش بحران تنہا حل نہیں کر سکتی، شاہد خاقان عباسی

13 مارچ 2023
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کی قیادت کو ذاتی ایجنڈوں سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے—فائل فوٹو: سی این این
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کی قیادت کو ذاتی ایجنڈوں سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے—فائل فوٹو: سی این این

ڈیفالٹ کے خدشات، بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور قیادت کے بحران کے پیش نظر حکمران اتحاد کے رہنماؤں اور دیگر سینیئر سیاستدانوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بات چیت کے ذریعے ان چیلنجز سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا بڑی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے، بصورت دیگر ملک کو ناقابل تلافی اور ناقابل تصور نقصان اٹھانا پڑے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی جانب سے ان خیالات کا اظہار حبیب یونیورسٹی میں ’ری امیجننگ پاکستان‘ کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کے دوران کیا گیا۔

موجودہ سیاسی قیادت کو نااہل، پارلیمانی نظام کو ناکارہ اور معیشت کو تباہ حال قرار دیتے ہوئے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ اپنے اداروں کو آئین کی طے شدہ حدود کے اندر رکھیں۔

شرکا نے کہا کہ یہ پارٹیوں میں سیاسی شعور کے لیے ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم ہے تاکہ وہ اصلاحات، استحکام اور اہم قومی مسائل پر اتفاق رائے کے اپنے حقیقی ایجنڈے پر توجہ مرکوز کر سکیں۔

شاہد خاقان عباسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’پاکستان کو درپیش بحران ہر ایک کے لیے ایک امتحان ہے، چاہے وہ شہباز شریف ہوں، عمران خان ہوں، فضل الرحمٰن ہوں یا آصف علی زرداری، یہ آپ کا بھی امتحان ہے، یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان کو درپیش بحران کو کوئی بھی جماعت تنہا حل نہیں کر سکتی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ملک کی قیادت کو ذاتی ایجنڈوں سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے، انہیں مل بیٹھنا ہوگا، انہیں راستہ نکالنا ہوگا، پاکستانی عوام اور پاکستانی نوجوان آپ کی جانب دیکھ رہے ہیں، اگر آپ کے پاس کوئی حل نہ بھی ہو تب بھی آپ کوشش ضرور کر سکتے ہیں‘۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ وفاقی کابینہ اس وقت کیسے معمول کے کام کر رہی ہے جب پاکستان بدترین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، اس سے نظام حکمرانی کی اہلیت کا پردہ فاش ہو گیا اور حکمران طبقے کی غریبوں کے مصائب سے بے حسی نمایاں ہوگئی ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’اس ملک کو ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے اور جب ہم ایک نئے سماجی معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو درحقیقت اس سے مراد ہمارے آئین کا اس کے حقیقی معنوں میں نفاذ ہے، ہم کب قوم کے حقیقی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیج سکیں گے؟

انہوں نے کہا کہ ’یہ پارلیمنٹ آپ اور پاکستانی عوام کے لیے قانون سازی نہیں کر رہی، یہ صرف موجودہ حکومت کی سہولت کے لیے قانون سازی کر رہی ہے، کابینہ اکثریت کے لیے فیصلے نہیں کرتی، اس طرح کے فیصلوں کے کچھ اور معیارات ہیں جن پر عمل کیا جاتا ہے‘۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ ڈیفالٹ کا سامنا کرنے والے ملک میں قانون سازوں کی اکثریت ٹیکس چور ہے لیکن ان سے ٹیکس ریفارمز، ریونیو جنریشن اور غریبوں کی بہتری کے لیے قانون بنانے کی امید کی جاتی ہے، کیا یہ جائز ہے کہ جو آدمی ٹیکس ادا نہیں کرتا اسے دوسروں پر ٹیکس لگانے اور اس مقصد کے لیے قانون بنانے کا اختیار ہو؟

پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اس سیمینار میں ان مسائل پر تفصیل سے غور کیا جائے گا جن پر پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو بحث کرنی چاہیے، بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت نے ایسے مسائل کو موضوع نہ بنانے فیصلہ کیا ہے جس سے لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل ہوجائے، ہمارا سیاسی مکالمہ اور بحث الزام تراشی کے گرد گھومتی ہے، 75 سال گزر جانے کے باوجود اور آدھا ملک کھونے کے بعد بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا اور یہ مجھے بہت مایوس کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مذہبی فکر کی تعمیر نو‘ کی مجھے کوئی امید نظر نہیں آتی، بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی نے بات چیت کے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے اور مفاد پرست عناصر کو مذہب کے نام پر ہر صورت حال کا استحصال کرنے کی اجازت دے دی ہے، ہمیں ہمیں مذہبی فکر کی تعمیر نو کی ضرورت ہے، علامہ اقبال نے 1930 کی دہائی میں اپنے فلسفیانہ کام میں اس کا ذکر کیا، اب ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں مختلف طبقات کی جانب سے مذہب کی مختلف تشریحات نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اس نے نفرت کو جنم دیا ہے اور ہمیں ایک دوسرے سے لڑانے پر مجبور کیا ہے، اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل نے حاضرین سے مختصر خطاب کرتے ہوئے حکومت سندھ پر الزام عائد کیا کہ وہ کراچی میں ہونے والے اس سیمینار کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے یہ سیمینار آئی بی اے میں منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ حکومت سندھ نے واضح کر دیا ہے کہ آئی بی اے میں ایسی تقریبات منعقد نہیں ہوں گی، پھر ہم نے آرٹس کونسل کا انتخاب کیا لیکن وہاں کے حکام نے بھی فون کال پر اس تقریب کی میزبانی سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، لہٰذا آخر کار ہم نے حبیب یونیورسٹی سے درخواست کی جس نے ہمیں اس تقریب کے لیے جگہ دینے میں کافی فراخدل کا مظاہرہ کیا، میرے خیال میں بہت سے لوگ ہماری جانب سے اختلاف رائے کی آواز اٹھانے کے اقدام کو ناپسند کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں