سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی، مفادات اور جمہوریت کے لیے کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہوں جبکہ 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بات چیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی، مفادات اور جمہوریت کے لیے میں کسی قربانی سے گریز نہیں کروں گا اور اس ضمن میں کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس جانب میں ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔

قبل ازیں زمان پارک میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی حکمرانی اور عملدرآمد پر یقین رکھتا ہوں۔

عمران خان نے کہا کہ میری گرفتاری عدالت میں پیش ہونے کے لیے نہیں مجھے مارنے کے لیے ہے، جب کہہ دیا تھا کہ عدالت پیش ہو رہا ہوں تو معلوم نہیں پھر سارا ڈراما کیوں رچایا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ یہ مجھے اس جگہ بلا رہے ہیں جس کے بارے میں مجھے سیکیورٹی خدشات ہیں، عدالت میں پیش ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا۔

’انتخاب کسی صورت 90 دن سے آگے نہیں جانے دیں گے‘

عمران خان نے کہا کہ انتخاب کسی صورت 90 دن سے آگے نہیں جانے دیں گے، انتخابات 90 روز سے آگے گئے تو پھر آئینی تحریک چلائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ کسی صورت آئین کی خلاف ورزی کرکے انتخابات آگے جانے نہیں دیں گے۔

’ایک دفعہ کوئی بتائے کہ میں نے قانون توڑا ہو‘

 پی ٹی آئی چیئرمین کا لاہور میں کارکنان سے خطاب: فوٹو: ڈان نیوز
پی ٹی آئی چیئرمین کا لاہور میں کارکنان سے خطاب: فوٹو: ڈان نیوز

بعدازاں لاہور میں پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے گھر پر ہزاروں پولیس اہلکاروں اور رینجرز نے چڑھائی کی جس سے ایسا لگا کہ میں دنیا کا بڑا دہشت گرد ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری گرفتاری کے لیے بکتربند گاڑی منگوالی، مجھے پچاس برس سے قومی جانتی ہے، ایک دفعہ کوئی بتائے کہ میں نے قانون توڑا ہو۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس ملک میں عوام سب سے زیادہ چندہ مجھے دیتی ہے جس سے تیسرا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال تعمیر ہو رہا ہے جبکہ پہلے نمل یونیورسٹی اور اب القادر یونیوسٹی تعمیر کی ہے جو کہ سب غریبوں کے لیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو فوج اور پولیس پکڑنے آجاتی ہے اور جرم یہ تھا کہ 18 تاریخ کو پیشی تھی لیکن پولیس 14 تاریخ کو ہی پہنچ گئی۔

’جیل میں بند کرنے کی کوشش لندن پلان تھا‘

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان سے پوچھا کہ تین دن پہلے گرفتار کرکے کیا کرنا ہے، لیکن مجھے پتا ہے کہ انہوں نے وہی کرنا تھا جو اعظم سواتی اور دیگر کے ساتھ کیا۔

عمران خان نے کہا کہ جیل میں بند کرنے کی پوری کوشش اس لیے ہوئی کہ لندن پلان تھا نہ کہ قانونی کارروائی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی قانون نہیں توڑا، 85 مقدمات ہیں میں لکھ کر دیتا ہوں کہ کسی ایک کیس میں بھی میری کوئی غیرقانونی چیز ثابت کریں میں خود ہی سیاست چھوڑ دوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے میں دوسرے لوگوں پر ٹکٹ تقسیم کرنے کا کام چھوڑتا تھا لیکن مجھے پتا ہے کہ 2018 کے ٹکٹ غلط تقسیم ہوئے تھے جس میں پیسا بھی چلا تھا اس لیے اب میں خود ہی ٹکٹ تقسیم کروں گا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میرے اوپر تو بہت کچھ کیا گیا اور گزشتہ انتخابات میں پیسے دے کر کتاب شائع کروا لی لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ بشریٰ بیگم کے خلاف منصوبہ بند مہم چلائی گئی، جو خاتون ایمان میں مجھ سے بھی آگے ہے اس کی کردار کشی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ جو خاتون نہ کبھی ڈنر پر جاتی ہیں، نہ شاپنگ یا کسی شادی میں گئی ہیں، نہ بینک اکاؤنٹ ہے ان کے خلاف منصوبہ کرکے مہم چلائی گئی۔

’18 مارچ کو عدالت میں پیش ہو رہا ہوں‘

ادھر قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ میں 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہو رہا ہوں اور اس سے قبل مجھے حفاظتی ضمانت حاصل تھی لیکن پولیس نے غیرقانونی طریقے سے رہائش گاہ پر کارروائی کی۔

انہوں نے کہا کہ جب ہزاروں کی تعداد میں پولیس فورس میری گرفتاری کے لیے میری رہائش گاہ پر پہنچی تو میرے وکیل نے انہیں گارنٹی دی کہ میں عدالت میں پیش ہونے جارہا ہوں۔

عمران خان نے کہا کہ میرے وکلا نے پولیس کو گارنٹی دی کہ میں عدالت میں پیش ہوں گا اور قانون کہتا ہے کہ اگر ایک بار میں نے پولیس کو گارنٹی دے دی تو پولیس کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کے باوجود پولیس نے تشدد، آنسو گیس، واٹر کینن کا استعمال جاری رکھا اور کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ بھی کی گئی جو کہ پاکستان میں کبھی نہیں ہوا۔

میزبان کی طرف سے مقدمات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ میرے خلاف اس وقت 85 مقدمات درج ہیں جس میں ہر روز کسی نہ کسی کیس میں عدالتی پیشی ہوتی ہے۔

توشہ خانہ کیس سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام الزامات ہیں، میں نے جو کیا وہ قانون کے مطابق کیا اور اس کیس میں متعلہ عدالت میں اس لیے پیش نہیں ہوا کیونکہ وہاں دو بم حملوں کا خطرہ تھا جہاں کوئی سیکیورٹی نہیں ہے اور ججز سمیت وکلا بھی قتل ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کو دوسری عدالت میں منتقل کیا جائے مگر ایسا نہیں کیا گیا اور وارنٹ گرفتار جاری کیے گئے لیکن حفاظتی ضمانت ہونے کے باوجود بھی پولیس رہائش گاہ پر آئی جس کا مقصد مجھے جیل میں رکھنا ہے۔

’پاکستان میں زیرحراست ٹارچر کیا جاتا ہے‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میرے کارکنان اور حامی پولیس سے اس لیے مزاحمت کر رہے تھے کیونکہ پاکستان میں ’زیرحراست ٹارچر‘ کیا جاتا ہے اور میرے سینیٹر سمیت دیگر ساتھیوں کو اس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیل میں رکھنے کا مقصد زیر حراست ٹارچر کرنا ہے جبکہ میں حال ہی میں ہونے والے حملے کے زخموں سے بحال ہوا ہوں اور وہی لوگ مجھے جیل میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کارکنان کی طرف سے پتھراؤ اور لاٹھیاں اٹھانے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں، اس سے قبل تین بار مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر بار جب میرے کارکنان کو میری گرفتاری سے متعلق معلوم ہوتا ہے تو میری رہائش گاہ کے اردگرد اکٹھے ہوجاتے ہیں کیونکہ لوگوں کو پتا ہے کہ قاتلانہ حملہ ان لوگون کی طرف سے کیا گیا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ میں عوام میں جاکر لوگوں کو بتاتا رہا ہوں کہ مذہبی جنونی کے ذریعے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور میری خوش قسمتی ہے کہ آج میں زندہ ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں