زمان پارک میں ’حملہ‘ کرنے والے پولیس افسران کےخلاف قانونی کارروائی کریں گے، عمران خان

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2023
عمران خان نے کہا کہ ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ ہاتھ سے نکلنے لگا ہے — فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان نے کہا کہ ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ ہاتھ سے نکلنے لگا ہے — فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ پر کارروائی کرنے والی پنجاب پولیس بشمول ان تمام افسران کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے جنہوں نے ’حملے‘ میں حصہ لیا۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت میں شرکت کے لیے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں اور کیپیٹل پولیس کے درمیان گھنٹوں طویل جھڑپوں کے ایک دن بعد یعنی آج لاہور میں زمان پارک سے اپنی رہائش گاہ سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے پنجاب پولیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رہائش گاہ پر حملہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایک مجسٹریٹ کے وارنٹ پر پولیس مجھے گرفتار کرنے پہنچ گئی، اسی مجسٹریٹ نے رانا ثنااللہ کے خلاف وارنٹ نکالے ہیں لیکن پولیس کہتی تھی کہ وہ ہمیں ملتا ہی نہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز عمران خان جیسے ہی جج کے سامنے پیش ہونے کے لیے اپنی زمان پارک کی رہائش گاہ سے نکلے تو پولیس کی بھاری نفری نے ان کے گھر پر سرچ آپریشن شروع کر دیا۔

زمان پارک میں پولیس آپریشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اہلکاروں نے گیٹ اور اس کی دیواریں توڑ دیں جبکہ گھر میں صرف ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور چند منتخب بندے موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں پولیس، فوج کے افسران، اس ملک کے ججز اور دیگر لوگوں سے اسلام میں چادر اور چار دیواری کے احترام کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ کل رات اس معاملے پر بات کرنا چاہتے تھے لیکن نہیں کر سکے، یہ اچھا تھا کہ میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میں اس وقت غصے میں تھا اور انسان کو غصے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکام کو معلوم تھا کہ بشریٰ بی بی جو کہ سیاست میں نہیں ہیں وہ گھر میں اکیلی تھیں، کسی کے گھر میں ایسا کرتے وقت آپ نے کیا محسوس کیا، میں اپنے فوجی افسران اور پولیس سے پوچھ رہا ہوں کہ اگر آپ کے گھروں میں ایسا ہو تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔

عمران خان نے الزام عائد کیا کہ آپریشن کرنے والے اہلکاروں نے ان کے گھر لوٹ مار کی، کیا پولیس کو گھروں کو لوٹنا ہے، پولیس نے جو کچھ بھی پایا لوٹ لیا، کیا تمہیں کوئی شرم نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی، لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے گی اور پی ٹی آئی کے کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کی ہلاکت کے معاملے پر نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرے گی۔

’جوڈیشل کمپلیکس میں نامعلوم افراد نے پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی‘

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے دعویٰ کیا کہ جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے گاڑی سے باہر اس لیے نہیں نکلا کیونکہ وہاں ’نامعلوم افراد‘ انہیں قتل کرنے کے منصوبے کے ساتھ پوزیشن لیے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے جوڈیشل کمپلیکس سے فوری طور پر واپس نہیں ہوا کیونکہ خون خرابہ ہوسکتا تھا، وہاں پولیس، رینجرز اور نامعلوم افراد میدان جنگ بنانے کے لیے میری پارٹی کے کارکنوں کو اشتعال دلانے کی بھرپور کوششیں کر رہے تھے اور اس کو مجھے قتل کرنے کے لیے بہانے کے طور استعمال کرتے‘۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی ہدایت پر موجودہ حکمرانوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے۔

مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان

خطاب کے دوران عمران خان نے اعلان کیا کہ پارٹی مینارِ پاکستان پر 22 مارچ کو ایک پاور شو کرے گی جس مقام سے انہوں نے 2013 کے انتخابات کے لیے اپنی مہم کا آغاز کیا تھا اور کہا کہ یہ ایک ’ریفرنڈم‘ ہوگا کہ قوم کہاں کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم بدھ کو مینار پاکستان جا رہے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ پورا ملک دیکھے، یہ ریفرنڈم ہوگا کہ عوام کہاں کھڑی ہے، سب کو پتا چل جائے گا کہ قوم کہاں کھڑی ہے، اور بدمعاشوں اور ان کے ہینڈلرز کی چال کہاں کھڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم کو اب طاقت کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ شعور حاصل کر چکی ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میرے گھر پر مسلسل حملے ہوئے، آنسو گیس، ربر گولیوں اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا، کیا کبھی کسی سیاسی رہنما کے خلاف اس طرح ہوا ہے کہ صرف اس کو اسلام آباد میں حاضری لگانی تھی جس کے لیے میں کہہ رہا ہوں کہ کورٹ میں پیش ہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں عدالت میں پیش نہیں ہوں گا، میں نے مچلکے جمع کرائے اور قانون کہتا ہے کہ مچلکے جمع کرانے کے بعد پولیس آپ کو گرفتار نہیں کر سکتی۔

’پولیس قتل کرنا چاہتی ہے‘

عمران خان نے سوال کیا کہ ان کا جرم کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم جانتی ہے کہ وہ ہمیشہ قانون کا احترام کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف اب تک 96 مقدمات درج ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں جب بھی گھر سے نکلتا ہوں، میرے خلاف مزید مقدمات درج کیے جاتے ہیں، یہ کون کر رہا ہے، ملک کے ساتھ ایسا کرنے کے ذمہ دار وہی مجرم ہیں جو میرے خلاف مقدمات درج کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر آباد میں ان پر حملے کے پیچھے اتحادی حکومت کا ہاتھ ہے اور انہیں ’ہینڈلرز‘ کی پشت پناہی حاصل ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی نے 8 مارچ کو لاہور میں جلسہ کر کے اپنی انتخابی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے سیکیورٹی خدشات کے باعث اپنی سماعت اسلام آباد کی عدالت سے منتقل کرنے کا کہا، ایف 8 -کچہری موت کا جال ہے اس وجہ سے ان کے لیے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کا مقصد مجھے انصاف کے لیے لے جانا نہیں بلکہ پکڑ کر اسلام آباد لے جانا تھا اور الیکشن ختم ہونے تک جیل میں ہی رکھنا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ لوگ میری رہائش گاہ پر اس لیے جمع ہوگئے کہ ان کو شک تھا کہ جس طرح اعظم سواتی اور شہباز گل کے ساتھ کیا گیا میرے ساتھ بھی وہی کیا جائے گا، میں نے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن لوگ سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور باہر نکلنے سے روک دیا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہی شک ہے، جن لوگوں کو ہماری حفاظت کرنی ہے ان پر ہی لوگوں کا شک ہے کہ وہ قاتل ہیں اس لیے وہ رہائش گاہ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ کل جب گھر سے عدالتی پیشی کے لیے نکلا تو اہلیہ کو خدا حافظ کہہ کر گیا کیونکہ مجھے شک تھا کہ یا تو مجھے گرفتار کریں گے یا قتل کریں گے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ان کا منصوبہ سیدھا تھا کہ عمران خان کو اکیلا کرکے جوڈیشل کمپلیکس لے جانا تھا جہاں سے گرفتار کرکے یا تو بلوچستان لے جانا تھا یا قتل کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے قتل کرنے کا پورا منصوبہ بنایا ہوا تھا کہ کسی طرح کوئی ردعمل آئے اور اس میں قتل کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ ہاتھ سے نکلنے لگا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ پولیس نے کارکنوں پر آنسو گیس پھینکی جو ان کی گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے کیونکہ پولیس ردعمل چاہتی تھی، جب ان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس پہنچی تو پولیس نے کارکنوں پر دوبارہ آنسو گیس پھینکی، میں جانا نہیں چاہتا تھا ورنہ وہ دعویٰ کرتے کہ میں بھاگ گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ گیٹ پر تھے تو پولیس نے کار کو گھیرے میں لے کر کارکنوں کو بھی مارنا شروع کر دیا، وہ انتظار کر رہے تھے کہ میں گاڑی سے باہر نکلوں اور پھر مجھے قتل کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں