برطانیہ نے اپنے فوجیوں کے ہاتھوں افغان شہریوں کے قتل کی تحقیقات شروع کردیں

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2023
نورزئی خاندان کے ایک رکن نے کہا کہ ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ ذمہ داروں سے ایک دن حساب لیا جائے گا — فائل فوٹو: رائٹرز
نورزئی خاندان کے ایک رکن نے کہا کہ ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ ذمہ داروں سے ایک دن حساب لیا جائے گا — فائل فوٹو: رائٹرز

برطانیہ نے ایک آزاد جج کی سربراہی میں 2010 اور 2013 کے درمیان افغانستان میں مسلح افواج کے ارکان کی جانب سے مبینہ طور پر غیر قانونی ہلاکتوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انکوائری میں کئی حراستی کارروائیوں جائزہ لیا جائے گا کہ ملٹری پولیس کی جانب سے غلط کاموں کے الزامات کی تحقیقات کیسے کی گئیں، بالخصوص یہ کہ کیا ان میں کوئی پردہ پوشی کی گئی۔

انکوائری شروع کرتے ہوئے سینئر جج چارلس ہیڈن-کیو نے کسی کو بھی معلومات کے ساتھ سامنے آنے کو کہا۔

سال 2011 اور 2012 میں رات کو مارے گئے چھاپوں کے دوران دو الگ الگ واقعات میں مبینہ طور پر برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے تین کم عمر لڑکوں سمیت 8 افراد کے اہل خانہ نے گزشتہ دسمبر میں اس انکوائری کے اعلان کا خیر مقدم کیا تھا۔

نورزئی خاندان کے ایک رکن نے کہا کہ ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ ذمہ داروں سے ایک دن حساب لیا جائے گا، 10 سال سے زیادہ پہلے میں نے اپنے دو بھائیوں، اپنے جوان بہنوئی اور بچپن کے ایک دوست کو کھو دیا تھا جن کے آگے زندگی پڑی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے برطانوی فوجیوں نے ہمارے خاندانی گھر کے باہر ہتھکڑیاں لگائیں، مارا پیٹا اور پوچھ گچھ کی اور میرے رشتہ داروں اور دوست کو سر میں اس وقت گولی ماری گئی جب وہ چائے پی رہے تھے۔

سیف اللہ کے خاندان کے ایک رکن نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو میرے خاندان، افغانوں کے جانی نقصان کی قدر کرتے ہیں، جو تحقیقات کے لیے کافی ہے’۔

بدھ کو باضابطہ طور پر انکوائری شروع ہونے کے بعد بات کرتے ہوئے قانونی فرم لی ڈے کی پارٹنر ٹیسا گریگوری نے کہا کہ ان کے مؤکل انکوائری ٹیم کی مدد کے منتظر ہیں کیونکہ وہ اس سچائی کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بہت عرصے سے چھپا ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ برسوں کی رازداری اور پردہ پوشی کے دوران ہمارے مؤکلوں نے اپنے پیاروں کی موت کے انصاف کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ اب افغانستان میں برطانیہ کی خصوصی افواج کے طرز عمل اور کمانڈ پر ایک نئی روشنی ڈالی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں