مردم شماری میں لوگوں کو وہیں شمار کیا جائے گا جہاں وہ رہائش پذیر ہیں، عہدیدار ادارہ شماریات

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2023
سندھ میں مردم شماری کا عمل 60 فیصد سے زیادہ مکمل ہوچکا — فوٹو: ٹوئٹر
سندھ میں مردم شماری کا عمل 60 فیصد سے زیادہ مکمل ہوچکا — فوٹو: ٹوئٹر

سندھ میں مردم شماری کا عمل 60 فیصد سے زیادہ مکمل ہوچکا ہے، اس حوالے سے ادارہ شماریات کے ایک عہدیدار نے واضح کیا ہے کہ لوگوں کو اس علاقے یا شہر میں شمار کیا جائے گا جہاں وہ رہتے ہیں اور جہاں کے وسائل وہ استعمال کرتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ان کے شناختی کارڈ پر کہاں کا پتا درج ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پہلی مرتبہ ملک میں ڈیجیٹل مردم شماری کرنے والی ٹیموں نے اب تک صوبے میں 3 کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو شمار کرلیا ہے، جن میں سے 85 لاکھ صرف کراچی میں مقیم ہیں۔

چیف مردم شماری کمشنر ڈاکٹر نعیم ظفر نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کے دوران تازہ اعداد و شمار بتائے۔

ڈاکٹر نعیم ظفر نے ملک بھر میں جاری مردم شماری کے حوالے سے کچھ افواہوں کی بھی تردید کی، انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے عمل کو آغاز میں چند رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم اس حوالے سے انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی انتظامیہ کو ان کے مطالبے کے مطابق ’ڈیجیٹل مردم شماری مانیٹرنگ ڈیش بورڈز‘ تک رسائی دی گئی ہے۔

انہوں نے تازہ مردم شماری کے تحت اب تک جمع ہونے والے ڈیٹا کی تفصٰلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس تقریباً 97 لاکھ خاندان درج ہیں، 61 لاکھ سے زیادہ گھرانوں کی گنتی کی جاچکی ہے اور باقی کے لیے کارروائی جاری ہے‘۔

چیف مردم شماری نے کہا کہ ’اب تک ہم سندھ میں 3 کروڑ 14 لاکھ افراد کو شمار کرچکے ہیں اور اس بار مردم شماری کے دوران ہم نے صرف لوگوں کی گنتی یا ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا جو ہم گزشتہ مردم شماری کے دوران کرتے تھے، بلکہ ہم نے ہر وہ چیز بھی شمار کی ہے جو سماجی امور اور اقتصادیات سے متعلق ہے‘۔

ڈاکٹر نعیم ظفر کی جانب سے پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں اب تک 3 کروڑ 14 لاکھ افراد شمار کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک کروڑ 64 لاکھ مرد، ایک کروڑ 50 لاکھ خواتین اور ایک ہزار 496 خواجہ سرا ہیں۔

کراچی کی اب تک شمار کی گئی آبادی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 85 لاکھ لوگ کراچی میں رہتے ہیں۔

ڈیجیٹل مردم شماری کے بارے میں حکومت سندھ کے تحفظات اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ان تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانیوں کے بارے میں سوال کے جواب میں ڈاکٹر نعیم ظفر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے تمام صوبائی انتظامیہ کو مردم شماری کی نگرانی کے ڈیش بورڈز تک رسائی کی اجازت دی ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے مردم شماری کے آغاز سے زیرگردش غلط فہمیوں کی وضاحت کی اور حیرت کا اظہار کیا کہ پہلے دن سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سب کچھ واضح کرنے کے باوجود یہ افواہیں کیوں پھیلائی جارہی ہیں۔

ڈاکٹر نعیم ظفر نے کہا کہ ’ہر کوئی یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ ہر شہری کو اس علاقے یا شہر میں شمار کیا جائے گا جہاں وہ رہتا ہے اور جس کے وسائل وہ استعمال کرتا ہے، اس چیز سے قطع نظر کہ اس کا شناختی کارڈ کس جگہ کا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ بات پہلے دن سے ہی واضح تھی، آپ کا شناختی کارڈ یقیناً آپ کے ووٹ یا دیگر چیزوں کا تعین کرتا ہے لیکن جب مردم شماری کی بات آتی ہے تو آپ کو وہاں شمار کیا جائے گا جہاں آپ رہتے ہیں اور جس جگہ کے وسائل استعمال کرتے ہیں‘۔

انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ سندھ میں سیلاب زدگان کی نقل مکانی کسی بھی ضلع کی آبادی کی اصل تعداد کو متاثر نہیں کرے گی کیونکہ مردم شماری کے لیے وضع کردہ طریقہ کار ایسے آفت زدہ طبقات کو شمار کرنے کے لیے خاص طور پر مرتب کیا گیا ہے۔

چیف مردم شماری نے وضاحت کی کہ ’مثال کے طور پر سیلاب کے بعد اپنے آبائی قصبوں اور دیہاتوں سے ہجرت کرنے والے تقریباً 22 لاکھ لوگوں کے لیے ہمارے پاس ہجرت یا نقل مکانی کا ذکر کرنے کے لیے ایک آپشن موجود ہے، پھر ہم ان کا ڈیٹا صوبائی حکومت کے ساتھ شیئر بھی کریں گے، ہم آبادی کی حتمی گنتی میں ہجرت کرنے والوں کے لیے ایک علیحدہ ٹیبل بھی بنائیں گے جس میں سیلاب زدگان کی تفصیلات ہوں گی‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں