افغان شہری سحر و افطار میں سبز چائے اور خشک روٹی پر گزارا کرنے پر مجبور

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2023
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ملک کی 70 فیصد آبادی کا امداد پر انحصار ہے — فائل فوٹو: اے پی
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ملک کی 70 فیصد آبادی کا امداد پر انحصار ہے — فائل فوٹو: اے پی

رمضان کے مقدس مہینے میں سحر و افطار میں ذائقے دار پکوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن افغانستان میں غذائی قلت اور خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے شہری اس نعمت سے محروم ہیں۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا جس کے بعد سے ملک میں خوراک اور بنیادی اشیا کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے اور کئی افغان شہری بےروزگار ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ملک کی 70 فیصد آبادی کا امداد پر انحصار ہے، لیکن یہ امداد بھی اب محدود ہو چکی ہے کیونکہ طالبان حکمران کے تحت ملک میں موجود نامور بین الاقوامی تنظیموں نے اپنا آپریشن بند کرلیا ہے۔

مسلم ممالک میں اس مقدس مہینے میں سحر و افطار میں ذائقے دار پکوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن افغان شہری اس نعمت سے محروم ہیں۔

خواتین کے حقوق کی ایک سابق کارکن شمسیہ حسن زادہ نے بتایا کہ ’ماضی میں ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ سیکیورٹی اہلکاروں اور اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے بھی افطار اور سحری کا اہتمام کرتے تھے، لیکن اب ہمارے پاس سبز چائے اور خشک روٹی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہماری فیملی کے پانچ افراد نوکری کرتے تھے لیکن اب صرف ایک شخص کام پر جاتا ہے اور اس کی آمدنی پوری فیملی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔

کابل کی سابق ​​انتظامیہ کے دور میں وزارت دفاع کے لیے بطور ڈرائیور کام کرنے والے محمد نعیم اس بات پر خوش تھے کہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے ملک زیادہ محفوظ اور پرامن رہا ہے، لیکن ملک کی معاشی صورتحال نے یہ خوشی رائیگاں کردی ہے۔

71 سالہ محمد نعیم کو گزشتہ چند ماہ سے پنشن نہیں ملی، ان کا کہنا تھا کہ ’یقین کریں گھر میں معاشی مسائل کی وجہ سے پچھلے دو سالوں میں اپنے لیے ایک کپڑا نہیں خرید سکا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ہم افطار اور سحری میں مختلف قسم کے کھانے کھاتے تھے لیکن اب ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

محمد نعیم کہ کہنا تھا کہ ’اگر میں گوشت کھاتا ہوں، تو وہ کسی خیراتی ادارے سے آتا ہے، لیکن میں اپنے گھر والوں کے لیے مارکیٹ سے کچھ خرید نہیں سکتا۔‘

خواتین کے حقوق کی کارکن کرشمہ نظری نے کہا کہ دن بھر روزہ رکھنے اور پھر افطار اور سحری میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہ ہونا میرے لیے اور کئی افغان خاندانوں کے لیے انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہے، ہم میں سے اکثر کے پاس سبز چائے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بہت سے امیر لوگ تھے جو غریب لوگوں کی مدد کرتے تھے لیکن طالبان کے آنے کے بعد وہ لوگ بھی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

پچھلی کابل انتظامیہ کے ملازم 35 سالہ سید عمر پچھلے دو سالوں سے خاندان کے نو افراد کا پیٹ پالنے کے لیے نوکری کی تلاش میں ہے۔

وہ روزانہ نوکری ڈھونڈنے کے لیے صبح شہر سے باہر جاتا ہے لیکن اکثر خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے خاندان کی کفالت کرنا بہت مشکل ہے، پہلے ہمارے پاس افطار اور سحری دونوں کے لیے کافی کھانا ہوتا تھا، یہاں تک کہ ہم اپنا کھانا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بانٹتے تھے، لیکن اب ہم بہت مجبور ہوگئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں