انتخابات میں تاخیر سے نگران حکومت کی مدت پر بحث چھڑ گئی

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2023
سابق اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا — فوٹو: ریڈیو پاکستان
سابق اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا — فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کرنے کے متنازع فیصلے نے مسائل کو جنم دیا ہے۔

کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسے ’ان کے قابو سے باہر کی وجوہات‘ کا جواز بتایا جبکہ ای سی پی میں کچھ دیگر حلقوں نے تسلیم کیا کہ یہ اقدام کمیشن کے آئینی مینڈیٹ سے باہر ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ کمیشن کے ’ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘ اور ان کے پاس الیکشن ملتوی کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی عملے اور فنڈز کے بغیر صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے، ان کی رائے کے مطابق یہ فیصلہ قانون کے مطابق کیا گیا ہے۔

تاہم الیکشن کمیشن کے دیگر عہدیداروں نے پس منظر میں ڈان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ای سی پی نے یکطرفہ طور پر عام انتخابات کی تاریخ طے کرکے اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتوں کی مدت میں غیر اعلانیہ توسیع دے کر اختیارات سے تجاوز کیا۔

ان میں سے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ای سی پی نے اپنے حکم میں سیکشن 8 (سی) کا حوالہ دیا، جس کا اس مرحلے پر کوئی تعلق نہیں ہے، یہ دفعہ منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے کمیشن کے اختیارات سے متعلق ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ کمیشن:

(۱ے) انتخابات کے کسی بھی مرحلے پر ایک یا ایک سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کو روکنا اگر اسے یقین ہو کہ وہ زبردستی، ڈرانے دھمکانے سمیت بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانیوں کی وجہ سے انتخابات کے شفاف، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد کو یقینی نہیں بنا سکے گا اور انتخابات میں دباؤ رہے گا۔

(بی) اس ایکٹ یا قواعد کے تحت کسی افسر کے جاری کردہ آرڈر کا جائزہ لیں، جس میں بیلٹ پیپر کو مسترد کرنا بھی شامل ہے۔

(سی) ایسی ہدایات جاری کریں، ایسے اختیارات کا استعمال کریں اور ایسے نتیجہ خیز احکامات صادر کریں جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوں کہ انتخابات ایماندارانہ، منصفانہ اور اس ایکٹ اور قواعد کی دفعات کے مطابق ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 58 کے تحت کمیشن نوٹی فکیشن جاری کرنے کے بعد کسی بھی وقت الیکشن کے مختلف مراحل کے دوران الیکشن پروگرام میں تبدیلیاں کرسکتا ہے یا پھر نیا الیکشن پروگرام جاری کر سکتا ہے، اس رائے کو تحریری طور پر درج کیا جانا ضروری ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ کمیشن کو ایک معقول حد سے زیادہ انتخابات میں تاخیر کا اختیار نہیں دیتا۔

انہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ پارلیمنٹ کا کوئی بھی عمل آئین کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، جس کے تحت صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے 90 دنوں کے اندر عام انتخابات کرانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بحث کی کہ آئین کے آرٹیکل 218 (3) اور ورکرز پارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے الیکشن کمیشن کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے اور بدعنوان طرز عمل کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا اختیار دیا ہے ’لیکن انتخابات کو مہینوں تک مؤخر کرنے کا اختیار نہیں دیا۔

الیکشن کمیشن کے ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ ای سی پی کو وزارت خزانہ اور دفاع اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی دن کرانے کے غیر اعلانیہ فیصلے کی بنیاد پر بریفنگ دینے کے بجائے خود پر زور دینا چاہیے تھا کہ بروقت انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 220 کا استعمال کر سکتا تھا جس کے تحت تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز ای سی پی کے کام کی انجام دہی میں مدد کرنے کے پابند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا تھا جو پہلے ہی فیصلہ دے چکا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دن کے اندر ہونے چاہئیں جبکہ عملی طور پر مشکلات کی صورت میں ’کم از کم تاخیر‘ کی اجازت دی ہے۔

الیکشن کمیشن کے ایک اور حکام کا خیال ہے کہ سیکیورٹی عملے کی قلت کے مسائل کی وجہ سے انتخابات مختلف مراحل میں منعقد کروائے جاسکتے تھے، انہوں نے یاد کیا کہ 2013 میں امن و امان کی صورتحال زیادہ نازک تھی تاہم الیکشنز ہوئے تھے۔

سابق اٹارنی جنرل نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اگر حقیقی خدشات موجود ہیں تب بھی الیکشن کمیشن کے لیے بہترین طرز عمل یہ ہوسکتا تھا کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرکے پوچھے کہ اب آگے کیسے جانا ہے، ایک بار عدالت عظمیٰ نے حکم جاری کردیا تو اسے کہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، اس پر عمل درآمد کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر مالیاتی خسارے اور سیکیورٹی خدشات کو تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

سابق لا افسر نے یاد کیا کہ حال ہی میں الیکشن کمیشن نے یہ پوزیشن لی تھی کہ وہ خود سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کرسکتا، لیکن اپنی بیان کردہ پوزیشن کے خلاف جاتے ہوئے الیکشن کمیشن نے یکطرفہ طور پر عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے سے عوام کو تعجب ہوا کہ کیسے نگران سیٹ اَپ کو تین مہینے سے زیادہ حکومت کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں