مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ موجودہ بحران نے اس وقت جنم لیا جب حمزہ شہباز شریف کی حکومت میں 25 اراکین کو تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالنے کے لیے سپریم کورٹ نے آئین کو ری رائٹ کیا، یہ قانون اور آئین پر بہت بڑا بدنما داغ ہے اور اسی سے اس بحران نے جنم لیا۔

مریم نواز نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے لائرز ونگ کے عہدیداران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی تقاریر میں بات کرتی رہی ہوں کہ اس ملک میں ترازو کے دو پلڑے برابر نہیں ہیں، پہلے ترازو کے پلڑے برابر کرو، پھر الیکشن کراؤ، ہم الیکشن سے نہیں ڈرتے کیونکہ ہم سلیکٹ ہو کر نہیں بلکہ الیکٹ ہو کر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پوری سیاست صرف اس بات پر منحصر ہے کہ کونسا تقرر کب ہو رہا ہے اور کل لاہور کے جلسے میں شیخ رشید کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ یہ چاہتے ہیں کہ اکتوبر میں الیکشن اس لیے ہوں کیونکہ اکتوبر میں یہ چیف جسٹس چلے جائیں گے اور دوسرے چیف جسٹس آجائیں گے، تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی ساری سیاست تقرریوں کے گرد گھومتی ہے، پہلے ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے کردار تھے جو اب جاچکے ہیں تو اب انہوں نے جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ ڈھونڈ لی ہے جس پر یہ تکیہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے لانگ مارچ اسی لیے کیا کہ آرمی چیف کے تقرر کو متنازع بنایا جائے اور اس کو روکا جائے کیونکہ ان کی پوری سیاست تقرریوں، بیساکھیوں اور سہولت کاروں کے اردگرد گھومتی ہے، ایک سہولت کار چلے گئے، انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور اب یہ عدلیہ میں ان کی باقیات پر تکیہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر نے کہا کہ نواز شریف کا کیس پوری دنیا کا واحد کیس ہے جس میں وزیراعظم کو صرف اس لیے نکال دیا کیونکہ اس کے اقامہ کی مدت ختم ہو گئی تھی اور اس نے جو اپنے بیٹے سے جو تنخواہ لینی تھی وہ نہیں لی، اتنے بڑے بڑے قانونی دماغ بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کل جنرل باجوہ نے یہ بات کہی کہ بیگمات کے کہنے پر اور ان کے دباؤ پر یہ فیصلے ہوتے ہیں، ہم نے تو ہمیشہ سنا تھا کہ قانون اندھا ہوتا لیکن آج پہلی مرتبہ پتا چلا کہ بیگمات کے کہنے پر بھی فیصلے ہوتے ہیں اور اس کا ثبوت پوری قوم نے دیکھا کہ جب پاناما بینچ کا فیصلہ ہونا تھا تو اس دن جسٹس کھوسہ، جسٹس ثاقب نثار ہو یا پاناما بینچ کے دیگر جج ہوں، ان کے بچے اور بیویاں عدالت میں موجود تھے اور ان کو فیصلوں کا پہلے سے علم تھا اور ان کی بیگمات اور بچوں کے کہنے پر فیصلے ہو رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ شخص عدالت میں نہیں جاتا، وہ چھپ کر بیٹھتا ہے، عدالت کی توہین کرتا ہے اور وہ جب بھی عدالت میں جاتا ہے تو اسے تھوک کے حساب سے ضمانت ملتی ہے، 12 مقدمات میں پانچ، پانچ منٹ میں ضمانت ملتی ہے، نواز شریف کے مقدمے جھوٹے تھے، سچے نہیں تھے، یہاں پر ٹیریان خان کا مقدمہ سچا ہے، توشہ خانہ سے تحفے سب نے لیے ہوں گے لیکن یہ پہلا شخص ہے جس نے تحفے چوری کیے۔

مریم نواز نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا جو فیصلہ آیا ہے اس میں ہر صفحے پر ناقابل تردید ثبوت ہیں، اگر وہ سچا نہ ہوتا تو سات سال یہ اس پر سانپ بن کر نہ بیٹھا ہوتا، سات سال اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اور پھر چار سال اپنی حکومت میں کھلنے نہیں دیا، وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ رنگے ہوئے تھے لیکن وہ عدالت میں پیش ہونے سے انکاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری عدالت میں سو سے زیادہ پیشیاں ہوئیں، نواز شریف کی 200 سے زائد پیشیاں ہوئیں لیکن ہم تو کبھی عدالت میں جتھے لے کر نہیں گئے، پھر جب پولیس عدالتی حکم پر عملدرآمد کے لیے زمان پارک جاتی ہے تو وہاں سے پیٹرول بم پھینکے جاتے ہیں اور پولیس والوں کے سر پھوڑے جاتے ہیں، پاکستان کا آئین اور قانون کہاں سو رہا ہے، کیوں اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ باقیوں سے سوتیلوں جیسا سلوک ہوتا ہے اور اس سے لاڈلے والا سلوک ہوتا ہے، کون ہے جو اس کو آج بھی تحفظ فراہم کر رہا ہے، قوم کو یہ سوال پوچھنا چاہیے، اگر آپ نے کوئی چوری نہیں کی تو جاکر جواب دے دیں، آپ کیوں چھپے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جمہوریت پسند کارکن ہوں اور سمجھتی ہوں کہ الیکشنز کے علاوہ پاکستان کا کوئی حل نہیں ہے، ہر پانچ سال کے بعد الیکشن ہونے چاہئیں لیکن سیاسی استحکام ہونا چاہیے، ہم الیکشن سے فرار حاصل نہیں کرنا چاہتے، ہم الیکشن لڑیں گے اور جیتیں گے بھی۔

مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر نے کہا کہ الیکشن ملتوی ہوا ہے تو آپ کو آئین یاد آگیا ہے، آپ کو آئین اس وقت کیوں نہیں یاد آیا جب 0-5 سے سپریم کورٹ نے آپ کو ڈکلیئر کیا تھا کہ آپ پاکستان کے پہلے سرٹیفائیڈ آئین توڑنے والے ہیں، قاسم سوری رولنگ پر جو اسمبلی توڑی گئی تھی اس پر سپریم کورٹ نے 0-5 کے فیصلے سے کہا تھا کہ کھلے عام آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور آئین کو توڑا گیا ہے، جو شخص آئین کو توڑتا ہے اس پر آئین کی کونسی شق لگتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو تو ایکسپائر اقامہ رکھنے پر سزا دے دیتے ہیں اور تاحیات نااہل کردیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ آئین توڑا گیا ہے لیکن اس آئین توڑنے والے کی سزا کدھر ہے، کیا یہ کوئی چھوٹا جرم ہے، اگر حکومت نے اس پر پٹیشن دائر نہیں کی ہے تو یہ حکومت کی کمزوری ہے، آج بھی کچھ نہیں بگڑا اور سپریم کورٹ میں پٹیشن فائل ہونی چاہیے۔

مریم نواز نے کہا کہ سوال یہ بنتا ہے کہ ایک ایسا شخص نے جس نے آئین، جمہوریت اور اسمبلیوں کو بچوں کا کھیل سمجھا ہے، اس شخص کے فیصلوں پر یہ ملک کیسے چلے گا، وہ جب چاہے اسمبلی توڑ دے، جب چاہے الیکشن کروا دے، جب چاہے کسی کی تقرری کو متنازع بنا دے، جب چاہے ملک میں انارکی پھیلا دے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی پنجاب اسمبلی تحلیل کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن انہوں نے زبردستی تحلیل کروائی، آپ ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلانے کے لیے اسمبلی توڑتے ہیں تو کیا اس شخص کے فیصلوں پر ریاست چلے گی۔

مسلم لیگ (ن) کی رہنما نے کہا کہ یہ بات وہاں سے شروع ہوتی ہے جب حمزہ شہباز شریف کی حکومت میں 25 اراکین کو آپ نے تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالنے کے لیے آئین کو ری رائٹ کیا، جس طرح اقامہ کا فیصلہ کوئی دنیا کی عدالت درست نہیں کہہ سکتی بالکل اسی طرح جو آئین کو ری رائٹ کیا گیا اس کو ری رائٹ کرنے والے بھی کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے، یہ قانون اور آئین پر بہت بڑا بدنما داغ ہے اور اسی سے اس بحران نے جنم لیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں