سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس کو دیے گئے ’ون مین شو‘ کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے اور ملک کی اعلیٰ عدالت کسی ایک شخص کے فیصلے پر منحصر نہیں ہو سکتی۔

سپریم کورٹ کے دونوں ججز نے ایسے ریمارکس پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے دوران دیے جیسا کہ پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ کے یکم مارچ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست دائر کی جس میں عدالت نے خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد وہاں صوبائی انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر 22 فرروی کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے پر ’وضاحت کی کمی‘ نظر آرہی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس پر سماعت کے لیے نو رکنی بینچ تشکیل دی تھی جس میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

بعدازاں 27 فرروی کو لارجر بینچ سے پانچ رکنی بینچ تک آگئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے تحریری حکمہ نامہ جاری کیا تھا جس کا حکم 23 فروری کو کھلی عدالت میں دیا گیا جب جسٹس جمال مندوخیل نے آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی شروع کرنے پر اعتراض کیا تھا۔

نو ججوں کے دستخطوں سے بنچ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ 23 فروری کے حکم نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے، چار ججوں کے اضافی نوٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس کی ہدایت پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ کے اٹھائے گئے سوالات کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ کے اینٹر روم میں ہونے والی بات چیت اور بحث کے بعد معاملہ دوبارہ اعلیٰ جج کے پاس بھیج دیا گیا۔

بعدازاں اس جواب میں چیف جسٹس پاکستان نے اپنی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی بینچ تشکیل دی تھی، تاہم سماعت سے خود کو علیحدہ کرنے والوں میں جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

یکم مارچ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا تھا جس میں دونوں صوبوں میں 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی جانب سے سامنے آنے والا یہ فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت کے ساتھ جاری کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے مشاورت کی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر کی طرف سے دیے گئے اکثریتی فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی تاریخ تجویز کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی بھی عملی مشکلات کی صورت میں اگر 90 دن کے اندر انتخابات نہیں ہوتے تو کوشش کرکے کم از کم دن کے اندر انعقاد کیا جائے۔

خیال رہے کہ 23 فروری کے حکم نامے میں اختلافی نوٹس لکھنے والے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے دونوں ججز نے اپنے مشترکہ اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ چیف جسٹس کی طرف سے سوموٹو نوٹس پر کارروائی مکمل طور پر غیر منصفانہ ہے اس کے علاوہ یہ غیر مناسب جلد بازی کے ساتھ شروع کی گئی تھی۔

28 صفحات پر مشتمل تفصیلی اختلافی نوٹ میں دونوں ججوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار نہ صرف صوابدیدی ہے بلکہ خصوصی اور غیر معمولی بھی ہے جس کا استعمال صرف عوامی اہمیت کے حامل غیر معمولی معاملات میں کیا جانا ہے جو کہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہیں جنہیں عدالت کے اس دائرہ اختیار کے تحت حل کرنے کے لیے ’مناسب‘ سمجھا جاتا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 184 تھری سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کو متعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے سوال سے متعلق معاملات میں دائرہ اختیار قائم رکھنے کے قابل بناتا ہے۔

دونوں ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو عموماً اور غیر محتاط طریقے سے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ اس سے غیر جانبدار عدالتی ادارے کے طور پر عدالت کے عوامی امیج کو نقصان پہنچے۔

جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انہیں موجودہ معاملے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی شدید تحفظات ہیں کہ نو رکنی بنچ کی تشکیل پر آرٹیکل 184 تھری کے تحت عدالت کے اصل دائرہ اختیار کو کس طرح سے خود کار طریقے سے استعمال کرنے کے طریقہ کار اپنایا گیا ہے، تاہم اس کا اظہار انہوں نے 23 فروری کو جاری ہونے والے حکم نامے پر لگائے گئے اختلافی نوٹوں میں بھی کیا ہے۔

دونوں ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت اس عدالت کا اصل دائرہ اختیار ایک ’غیر معمولی‘ دائرہ اختیار ہے جس کا استعمال احتیاط کے ساتھ کیا جانا ہے، یہ آرٹیکل اختیارات سے نوازتا ہے اور عدالت ان کو استعمال کرنے کی پابند نہیں ہے یہاں تک کہ جب اس کے سامنے لائے گئے مقدمے میں کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال شامل ہو۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت اس عدالت کا دائرہ اختیار آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹس کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اگر آرٹیکل 199 کے تحت کسی بھی ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار پہلے ہی استعمال کیا جا چکا ہے اور معاملہ زیر التوا ہے تو پھر اس عدالت کے ذریعہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے سے پہلے دو قائم اصولوں پر بھی غور کرنا چاہیے:

• پہلا یہ کہ جہاں دو عدالتوں کا ایک ساتھ دائرہ اختیار ہے اور ایک درخواست دہندہ ان عدالتوں میں سے کسی ایک کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کا انتخاب کرتا ہے تو وہ اپنے انتخاب کے فورم کا پابند ہے اور اسے اس عدالت کی پیروی کرنی چاہیے

• دوسرا یہ کہ اگر اس طرح کے ہم آہنگی دائرہ اختیار رکھنے والی عدالتوں میں سے کوئی ایک اعلیٰ عدالت بنتی ہے جس میں ہم آہنگی کے دائرہ اختیار کی دوسری عدالت سے اپیل کی جاتی ہے تو اعلیٰ عدالت کو عام طور پر ان ہی حقائق پر ایک جیسی درخواست کے بعد ایسی درخواست نہیں سننی چاہیے جو پہلے ہی دائر کی جا چکی ہے اور نچلی عدالت میں فیصلہ زیر التوا ہے ورنہ یہ فریقین میں سے کسی ایک کو اپیل کے حق سے محروم کر دے گا

دونوں ججز نے اصول بتاتے ہوئے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ کہ اگر لاہور ہائی کورٹ انتخابات میں تاخیر سے متعلق زیر التوا انٹر کورٹ اپیلوں پر فیصلہ کرے اور اگر پشاور ہائی کورٹ پہلے سے موجود زیر التوا رٹ پٹیشن پر فیصلہ کرے گی تو پھر سپریم کورٹ کو اس معاملہ پر ازخود نوٹس نہیں لینا چاہیے۔

ججز نے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا کہ موجودہ سوموٹو کارروائی اور اس سے منسلک آئینی درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت اس عدالت کے غیر معمولی اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے موزوں نہیں بنتیں۔

انہوں نے دلیل دیا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی ہائی کورٹ کے عدالتی حکم کے خلاف آئین کے آرٹیکل 199 میں بیان کردہ نوعیت کا حکم صادر کرے۔

اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’لہذا، موجودہ از خود نوٹس پر سماعت اور آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت دائر کی گئی منسلک آئینی درخواستیں آرٹیکل 199 فائیو کے آرٹیکل 175 ٹو کے تحت آئینی نوعیت کے پیش نظر برقرار نہیں ہیں جیسا کہ وہ اس معاملے سے متعلق ہے جس کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کیا ہے۔

ون مین شو

دونون ججز نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ادارے کو مضبوط بنانے کے پیش نظر اور اعلیٰ عدلیہ میں عوام کا اعتماد یقینی بنانے کے لیے یہ وقت ہے کہ ہم چیف جسٹس کے دفتر کی طرف سے لطف اندوز ہونے والے ’ون مین شو‘ کی طاقت کا دوبارہ جائزہ لیں۔

ججز نے لکھا کہ ’یہ عدالت ایک آدمی یعنی چیف جسٹس کے اکیلے فیصلے پر منحصر نہیں ہوسکتی لیکن اسے آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت عدالت کے تمام ججوں کے ذریعے منظور شدہ اصول پر مبنی نظام کے ذریعے ریگیولیٹ کیا جانا چاہیے جس کے تحت آرٹیکل 184 تھری کے تحت از خود دائرہ اختیار کی مشق، ایسے مقدمات کی سماعت کے لیے بنچوں کی تشکیل، اس عدالت میں قائم دیگر تمام مقدمات کی سماعت کے لیے باقاعدہ بنچوں کی تشکیل اور خصوصی بنچوں کی تشکیل کے لیے اپنے دائرہ اختیار کے استعمال کو منظم کیا جائے۔

اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’ون مین شو‘کی طاقت نہ صرف غیر متزلزل اور فرسودہ ہے بلکہ یہ گڈ گورننس کے خلاف بھی ہے جو کہ جدید جمہوری اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔

ججز نے لکھا کہ کہ ون مین شو سے اختیارات ایک شخص کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں اور نظام کو طاقت کے غلط استعمال سے زیادہ حساس بنایا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس توازن اور نظرثانی کے ساتھ ایک مشترکہ نظام طاقت کے غلط استعمال اور غلطیوں کو روکنے اور شفافیت اور احتساب کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ جب ایک شخص کے پاس بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے تو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ ادارہ آٹوکریٹ اور غیر محفوظ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں ایک شخص کی پالیسیوں پر عمل کیا جائے گا جس میں لوگوں کے حقوق اور مفادات کے خلاف جانے کا رجحان پیدا ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔

ججز نے مزید لکھا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا ادارہ اپنی طاقت عوامی رائے سے حاصل کرتا ہے، اس عدالت اور نظام عدل کی پوری عمارت عوام کے اعتماد اور اس پر دیے گئے اعتماد پر قائم ہے۔

انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ’ون مین شو کے اختیارات پر دوبارہ نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وسیع نقطہ نظر کو محدود کرنے، طاقت کو مرتکز کرنے کے ساتھ ساتھ آٹو کریٹ نظام کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔

دونوں ججز نے مزید لکھا کہ سپریم کورٹ نے بار بار کہا ہے کہ عوامی اداروں کو اپنی صوابدید کس طرح تشکیل دینا چاہئے لیکن آرٹیکل 184 تھری کے تحت دائرہ اختیار کو ریگولیٹ کرنے کے معاملے، بشمول از خود نوٹس اور بنچوں کی تشکیل اور مقدمات تفویض کرنے کے معاملات میں چیف جسٹس وہی معیار برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس کو دیے گئے اس طرح کے اختیارات سے عدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور عدالت کی عزت اور وقار کم ہوتا ہے۔

ججز نے تجویز دی کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ کے غیر معمولی دائرہ اختیار کو صرف اسی صورت میں استعمال کیا جائے جب تمام ججوں کی اکثریت یا عدالت کے پہلے پانچ یا سات جج بشمول چیف جسٹس اس پر اتفاق کرتے ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس دائرہ اختیار کے تحت نمٹائے جانے والے مقدمات کے انتخاب کا معیار بھی قواعد میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

صوبائی خودمختاری

دونوں ججوں نے یہ بھی کہا کہ وفاق کا بنیادی اصول صوبائی خود مختاری ہے جسے صوبائی قانون سازی، ایگزیکٹو اور عدالتی اداروں کے خود مختار کام کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

ججز نے لکھا کہ وفاقی اداروں کو وفاقیت میں اس اصول کی پابندی کرنی چاہیے، ہمارے آئین کے تحت کسی صوبے کی ہائی کورٹ اس صوبے کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت ہے اور اسے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائرہ اختیار سے نوازا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقائی دائرہ اختیار میں وفاق، صوبے یا مقامی اتھارٹی کے معاملات کے ساتھ۔ ساتھ تمام امور اور کارروائیوں کا عدالتی جائزہ لے۔

دونوں ججز نے لکھا کہ صوبائی خود مختاری کے اصول کا تقاضا ہے کہ جب کوئی معاملہ جس کا تعلق صرف ایک صوبے سے ہو نہ کہ وفاق سے تو اس صوبے کی ہائی کورٹ کو اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے اپنے آئینی دائرہ کار کو استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ اس عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت ایسے معاملے میں اپنے دائرہ اختیار استعمال نہیں کرنا چاہئے جس کا دائرہ اختیار بنیادی طور پر وفاقی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آئین کا وفاقی ڈھانچہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کسی صوبے کی اعلیٰ ترین صوبائی آئینی عدالت کی خود مختاری اور آزادی میں یہ عدالت مداخلت نہ کرے بلکہ صوبائی خودمختاری کو مضبوط بنانے اور صوبائی آئینی عدالتوں کی خود مختاری کو مجروح کرنے سے بچنے کے لیے اس کی معاونت کی جائے۔

سیاسی عمل میں مداخلت

ججوں نے نوٹ میں لکھا کہ کہ سوموٹو کی کارروائی اور منسلک آئینی درخواستوں کی وجہ سے سپریم کورٹ کو ’سیاسی عمل‘ میں داخل کیا گیا ہے۔

ججز نے لکھا کہ جہاں سیاسی جماعتیں اور ان کے خیالات پر چلنے والے لوگ شدید طور پر منقسم ہیں اور ان کے اختلاف رائے نے ملک میں ایک الزامی سیاسی ماحول پیدا کر دیا ہے وہاں آرٹیکل 184 تھری کے تحت اس عدالت کی اپنے صوابدیدی اور غیر معمولی دائرہ اختیار میں مداخلت کرکے اس کو ایک ’سیاسی بحث‘ میں تبدیل کرنا نامناسب ہوگا اور یہ عمل عوام کے ایک بڑے طبقے کو تنقید کرنے کی دعوت دے گا۔

ججز نے مزید لکھا کہ ہمیں اس بات کا بھی ادراک رکھنا چاہیے کہ قوم کی زندگی میں ہمیشہ ایسے اہم واقعات ہوتے ہیں جہاں سیاسی نظام مایوسی کا شکار ہو سکتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ عدلیہ سہارا دے گی۔ ایک جمہوری سیاسی عمل ایسے معاملات کو حل کرنے کے لیے بہترین ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی ایک مشاورتی یا شراکتی عمل نہیں اور اس معاملے میں ثالثی نہیں کر سکتا جہاں معقول لوگوں کے لیے اختلاف رائے کی گنجائش موجود ہو، تاہم صرف سیاسی عمل ہی ایسے مسائل کو حل کر سکتا ہے اور اختلافات کو ایڈجسٹ کر سکتا ہے۔

دونوں ججز نے لکھا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنے لوگوں میں تقسیم کو کم نہیں کر سکتی جب تک اس کے سیاسی نمائندے لوگوں کی سماجی، معاشی اور سیاسی مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لیے جمہوری عمل اور سیاسی مذاکرات کو نہیں اپناتے۔

بینچ کی دوبارہ تشکیل

جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو جج بنچ کا حصہ بنتا ہے اور اسے تفویض کردہ کیس کو ضبط کر لیا جاتا ہے اسے اس بنچ سے خارج نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وہ اس کیس کی سماعت سے خود کو الگ نہ کر لے یا کسی غیر متوقع وجہ سے بنچ پر بیٹھنے کے لیے وجہ دستیاب نہ ہو جائے۔

انہوں نے لکھا کہ اس کیس میں دو ججوں نے کیس کی مزید سماعت کے لیے بنچ پر بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کا آپشن معزز چیف جسٹس پر چھوڑ دیا، معزز چیف جسٹس کی طرف سے اس اختیار کے استعمال کا ان دو ججوں کے عدالتی فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

انہوں نے لکھا کہ بنچ کی تشکیل نو بنچ کے بقیہ پانچ ممبران کے ذریعہ کیس کی مزید سماعت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے محض ایک انتظامی عمل تھا اور وہ اس معاملے میں دو معزز ججوں کی طرف سے دیے گئے عدالتی فیصلوں کو کالعدم یا ایک طرف نہیں کر سکتا تھا جس کو معاملہ حتمی طور پر ختم ہونے کے بعد شمار کیا جائے گا۔

دونوں ججز نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بینچ سے نہیں ہٹایا گیا بلکہ وہ رضاکارانہ طور پر خود الگ ہوگئے ہیں، اس طرح، ان کے مختصر احکامات کیس کا حصہ ہیں لہذا، معزز چیف جسٹس کی طرف سے بنچ کی تشکیل نو کا انتظامی حکم ان دو ججوں کے عدالتی فیصلوں کو ایک طرف نہیں کر سکتا جنہوں نے نو رکنی بینچ کے دوران سماعت پر اس معاملے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس یحٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلوں کو شمار نہ کرنا ان کی رضامندی کے بغیر انہیں بنچ سے خارج کرنے کے مترادف ہوگی جو کہ قانون کے تحت جائز نہیں اور نہ ہی چیف جسٹس کے اختیارات میں ہے۔

دونوں ججز نے مؤقف اختیار کہا کہ ’ہماری رائے ہے کہ موجودہ ازخود نوٹس کی کارروائی اور ان سے منسلک آئینی درخواستوں کو خارج کرنا سات رکنی بنچ میں سے 4 سے 3 کی اکثریت سے عدالت کا حکم ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے صوبائی انتخابات کے انعقاد کے لیے صدر اور خیبرپختونخوا کے گورنر کو الگ الگ خطوط لکھے تھے۔ اس کے بعد صدر نے اعلان کیا تھا کہ پنجاب میں انتخابات 30 اپریل کو ہوں گے۔

لیکن بعدازاں 22 مارچ کو حیران کن پیش رفت کے ساتھ الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات مزید پانچ ماہ کے لیے ملتوی کرکے 8 اکتوبر کو کرانے کا فیصلہ جاری کیا تھا جس کے لیے ملک میں بڑھتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کا جواز پیش کیا گیا تھا لیکن یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

دریں اثنا خیبرپختونخوا کے گورنر نے صوبے میں انتخابات کے لیے 28 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی لیکن بعد میں وہ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے جبکہ نئی تاریخ کے اعلان سے قبل سیکیورٹی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے کا مطالبہ کیا۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرکے نئی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد گورنر خیبرپختونخوا نے بھی ایک خط کے ذریعے 8 اکتوبر کو صوبائی انتخابات کی تجویز دی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں