امریکا: نیش ویل کے اسکول میں خاتون حملہ آور کی فائرنگ، 3 طلبہ سمیت 6 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023
اسکول میں تقریباً 12 سال تک کی عمر کے 200 سے کچھ زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں — فوٹو: رائٹرز
اسکول میں تقریباً 12 سال تک کی عمر کے 200 سے کچھ زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں — فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر نیش ویل میں ایک 28 سالہ خاتون نے ایک پرائیویٹ ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ کر کے تین بچوں اور عملے کے 3 افراد کو ہلاک کر دیا، جس کے بعد پولیس نے حملہ آور خاتون کو بھی مار ڈالا۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق نیش ویل پولیس کے ترجمان ڈان آرون نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کم از کم دو اسالٹ رائفلز اور ایک ہینڈگن سے لیس، شوٹر سائیڈ والے دروازے سے کرسچن کووننٹ اسکول میں داخل ہوئی اور فائرنگ کردی۔

مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے کے قریب پہلی ہنگامی کال موصول ہونے کے تقریباً 15 منٹ کے اندر افسران جائے وقوع پر موجود تھے جہاں ان کا حملہ آور کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا پھر اسے گولی ماردی گئی۔

ڈان آرون نے کہا کہ نوجوان خاتون کی شناخت پولیس نے نیش ویل سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ کے طور پر کی گئی ہے، جس نے اسکول میں داخل ہو کر متعدد گولیاں چلائیں، تاہم حملے کے محرک کے بارے میں ابتدائی طور پر کوئی اشارہ نہیں ملا۔

پولیس افسر نے بتایا کہ اسکول کے اندر 3 طلبہ کے ساتھ ساتھ 3 مزید افراد شدید زخمی ہوئے، بالغ افراد اسکول کے 40 سے 50 عملے میں شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حملہ آور سمیت ان متاثرین کی شناخت کے لیے کام کر رہے ہیں، مزید کوئی زخمی نہیں ہوا۔

نیش ویل کے فائر ڈپارٹمنٹ کی کینڈرا لونی نے کہا کہ ’بقیہ تمام طلبہ کو فیکلٹی اور عملے کے ساتھ عمارت سے باہر نکال لیا گیا تھا، ہم جائے وقوع پر موجود تھے تاکہ کسی کو یہ دیکھنے سے روک سکیں کہ اور کیا ہو رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے ارد گرد ہونے والی افراتفری کو سنا، لہٰذا ہمارے پاس دماغی صحت کے ماہرین اور پیشہ ور افراد موجود ہیں جو طلبہ اور خاندانوں دونوں کے دوبارہ ملنے کے مقام پر موجود ہیں۔

کوویننٹ اسکول ایک پرائیویٹ پریسبیٹیرین ادارہ ہے جس میں پری اسکول سے لے کر تقریباً 12 سال تک کی عمر کے 200 سے کچھ زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

امریکا میں اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات خطرناک حد تک عام ہیں، جہاں حالیہ برسوں میں آتشیں اسلحے کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے البتہ شاذ و نادر ہی حملہ آور کوئی خاتون ہوتی ہے۔

وائٹ ہاؤس نے اسکول میں ہونے والی تازہ ترین فائرنگ کو ’دل دہلا دینے والا‘ قرار دیا اور ریپبلکنز پر زور دیا کہ وہ صدر جو بائیڈن کے امریکا میں بڑے فائرنگ کے واقعات میں استعمال ہونے والے اسالٹ ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی حمایت کری۔

پریس سیکریٹری کیرین جین پیئر نے کہا کہ جو بائیڈن کو ’معصوموں کی ایک اور فائرنگ کی دل دہلا دینے والی خبر‘ کے بارے میں آگاہ کردیا گیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ ریپبلکن ’اسالٹ ہتھیاروں پر پابندی کو منظور کرنے کے لیے قدم اٹھانے اور عمل کرنے کے لیے‘ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔

اسی طرح ریاست ٹینیسی میں کئی منتخب عہدیداروں نے بھی اپنے صدمے کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

سینیٹر بل ہیگرٹی نے ٹوئٹ کیا کہ ’کوویننٹ اسکول میں ہونے والی المناک خبر سے تباہی اور دل ٹوٹ گیا‘۔

سینیٹر مارشا بلیک برن نے کہا کہ ’میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ابتدائی ردعمل دینے والوں کی ان کے بہادرانہ اقدامات پر شکر گزار ہوں جس کے بعد انہوں نے متاثرین کے لیے دعا کی‘۔

2012 میں کنیکٹی کٹ کے سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول میں 20 بچوں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، اس جیسے ہونے والے ہائی پروفائل قتل عام پر عوامی ہنگامے کے باوجود واشنگٹن میں بندوق کے تشدد سے نمٹنے کے لیے قانون سازی تعطل کا شکار ہے۔

گزشتہ برس ٹیکساس کے شہر اوولڈے میں ایک حملہ آور نے فائرنگ کر کے 19 طلبہ اور 2 اساتذہ کو ہلاک کر دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں