چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات میں کمی کا بل کابینہ سے منظور، قومی اسمبلی میں پیش

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023
وزیر اعظم شہباز شریف نے آج قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اس تناظر میں متعلقہ قانون سازی کا مطالبہ کیا— فائل فوٹوز: اے پی پی
وزیر اعظم شہباز شریف نے آج قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اس تناظر میں متعلقہ قانون سازی کا مطالبہ کیا— فائل فوٹوز: اے پی پی

وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے اور سپریم کورٹ کے بینچوں کی تشکیل کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے بل کی منظوری دے دی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔

سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کی جانب سے اصل دائرہ اختیار کے استعمال کا موضوع مختلف فورمز پر زیر بحث تھا۔

ایک روز قبل، سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارات پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ ایک آدمی کے تنہا فیصلے پر انحصار نہیں کر سکتی۔

پیر کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے چیلنج کی گئی درخواست کی سماعت کے چند گھنٹوں بعد دونوں ججوں نے یہ ریمارکس اپنے تفصیلی اختلافی نوٹ میں دیے تھے۔

دونوں ججوں نے کہا تھا کہ صوبائی انتخابات کے حوالے سے سوموٹو کی کارروائی 3-4 کی اکثریت سے مسترد کر دی گئی اور کہا کہ چیف جسٹس کو متعلقہ ججوں کی رضامندی کے بغیر بینچوں کی تشکیل نو کا اختیار نہیں ہے۔

اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے آج قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اختلافی نوٹ کو امید کی کرن قرار دیتے ہوئے اس تناظر میں متعلقہ قانون سازی کا مطالبہ کیا۔

کابینہ کی طرف سے منظور کردہ بل میں بینچوں کی تشکیل کے بارے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے ہر وجہ، معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے بڑے بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

تحریک انصاف نے بل مسترد کردیا

پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے ان ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک ’منتخب پارلیمنٹ‘ کو تفصیلی بحث کے بعد ایسا کرنے کا حق ہے۔

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی شدید مذمت اور مجوزہ ترامیم کو مسترد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حق صرف منتخب پارلیمان کو ہے کہ وہ ایک تفصیلی بحث کے بعد کوئ بھی ترمیم کرے، عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی سخت مذمت کرتے ہیں۔

بل قومی اسمبلی میں پیش

عدالتی اصلاحات کا بل کابینہ سے منظوری کے بعد آج وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔

وزیر قانون نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بار بار معمولی باتوں پر سوموٹو نوٹسز کیے گئے ، یہ سوموٹو ادارے کی تکریم کا باعث نہیں بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی عدالت عظمی کا فیصلہ آیا جس میں ججز صاحبان نے لکھا کہ یہ ضروری ہے کہ کیسز کی تقسیم میں یکسانیت رکھنے کے لیے ایسا میکانزم بنایا جائے جس میں شفافیت ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ رولز آف پروسیجر آئین اور قانون کے تابع بنائے گئے، ان رولز میں یہ اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے اور اسی وجہ سے ہماری عدالتی تاریخ میں وہ ادوار بھی آئے جب فرد واحد نے اس اختیار کا استعمال اس طرح سے کیا کہ ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا اور انتظامی سطح پر خلاف ورزیاں ہوئیں جس کی وجہ سے عدالت کی ساکھ اور وقار پر انگلیاں اٹھائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور صورتحال سے بھی پالا پڑتا رہا کہ نظرثانی کی درخواست میں سپریم کورٹ رولز یہ کہتے ہیں کہ نظرثانی کی درخواست وہی وکیل دائر کرے گا جس نے مقدمے کی پیروی کی ہے لیکن آئین آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ آپ اپنی مرضی کا وکیل مقرر کریں لیکن رولز کے ذریعے سے اس پریکٹس کو روک دیا گیا، اس بارے میں بھی بارہا مطالبہ کیا گیا کہ اس بارے میں قانون سازی ہونی چاہیے تو ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے وزارت قانون میں کچھ کارروائی جاری تھی۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اب گزشتہ روز جو دو معزز ججوں کا فیصلہ آیا ہے اس نے ایک اور تشویش کی لہر پیدا کردی اور ایک اور اندیشہ پیدا ہو گیا کہ خدانخواستہ ادارے میں یہ تقسیم اور فرد واحد کو دیا گیا اختیار دیا گیا ہے اس سے اعلیٰ ترین عدلیہ کے اعلیٰ ترین ادارے کو کوئی نقصان نہ ہو اور اس کی ساکھ اور شہرت کو کوئی نقصان نہ پہنچے، تو ان سب عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت قانون و انصاف نے یہ بل تجویز کیا جسے کابینہ نے متفقہ طور پر منظور کر کے پارلیمان میں پیش کرنے کے لیے بھیجا ہے۔

اس موقع پر اعظم نذیر تارڑ نے بل پارلیمنٹ میں پڑھ کر سنایا اور اسپیکر راجا پرویز اشرف نے بل لا اینڈ جسٹس کمیٹی کو بھیج دیا۔

’عدلیہ کی بے جا مداخلت عدم استحکام کا باعث قرار‘ قرارداد پیش

بعدازاں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ ایوان سیاسی معاملات میں عدلیہ کی بے جا مداخلت کو عدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایوان خیبر پختونخوا اور پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے یکم مارچ کے چار جج صاحبان کے فیصلے اور رائے کی تائید کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ توقع رکھتا ہے کہ عدلیہ سیاسی اور انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد خود مختار ادارہ ہے جو آئینکے آرٹیکل 218 کے تحت شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے لہٰذا الیکشن کمیشن کے آئینی دائرہ اختیار میں مداخلت نہ کی جائے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ یہ ایوان یہ بھی قرار دیتا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے اور کمیشن کو اس کی صوابدید کے مطابق سازگار حالات میں الیکشن کا انعقاد کرانے دیا جائے۔

قرارداد کے آخر میں کہا گیا کہ یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ وہ دستوری معاملات جن میں اجتماعی دانش درکار ہو اور اس کا مطالبہ بھی آجائے تو ایسے معاملات کی سماعت عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ بینچ کرے۔

قرارداد کو قومی اسمبلی سے منظور کر لیا گیا جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں