قومی اسمبلی کے اجلاس میں دوسرے روز بھی عدلیہ کی کارکردگی موضوعِ بحث

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2023
وزیر نے پارلیمان کے ایوان زیریں کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں 51 ہزار 744 مقدمات زیر التوا ہیں—تصویر: شہادت اعوان فیس بک
وزیر نے پارلیمان کے ایوان زیریں کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں 51 ہزار 744 مقدمات زیر التوا ہیں—تصویر: شہادت اعوان فیس بک

قومی اسمبلی میں مسلسل دوسرے روز عدلیہ کی کارکردگی اور کام کی جانچ پڑتال کی گئی اور ایوان کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ اور ملک کی پانچوں ہائی کورٹس میں 3 لاکھ 80 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متبادل پرائیویٹ ممبرز ڈے پر قانون سازوں نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بجلی کے ٹیرف پر سبسڈی واپس لینے کے حکومتی اقدام پر بھی احتجاج کیا۔

یہ دونوں معاملات وقفہ سوالات کے دوران زیر بحث آئے اور قانون سازوں نے ایک بار پھر ملک کی عدالتوں میں مقدمات کے بہت زیادہ بیک لاگ کی وجوہات پر بحث کرنے میں زیادہ وقت صرف کیا۔

وزیر مملکت برائے قانون و انصاف شہادت اعوان کے مطابق اس کی ایک وجہ عدلیہ کی جانب سے تمام عدالتوں میں خالی اسامیوں کو پر کرنے میں توجہ نہ دینا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی منحرف رکن اسمبلی نزہت پٹھان کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے وزیر ملکت نے اسمبلی کو بتایا کہ 31 دسمبر 2022 تک اعلیٰ عدالتوں میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 80 ہزار 436 مقدمات زیر التوا تھے۔

جبکہ ججز کی 38 اسامیاں اس وقت بھی خالی ہیں۔

اعداد و شمار فراہم کرتے ہوئے وزیر نے پارلیمان کے ایوان زیریں کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں 51 ہزار 744 مقدمات زیر التوا ہیں جہاں ججوں کی تین اسامیاں طویل عرصے سے خالی پڑی ہیں۔

اسی طرح ملک کے سب سے بڑے صوبے کی لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ 79 ہزار 425 مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ 60 کی منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں ججوں کی کل 19 اسامیاں خالی ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ میں 85 ہزار 781 مقدمات زیر التوا ہیں جسے 11 ججز کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد 41 ہزار 911 ہے جب کہ بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں بالترتیب 4 ہزار 198 اور 17 ہزار 104 کیسز زیر التوا ہیں۔

گزشتہ پانچ سال کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ زیر التوا مقدمات کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی ہوئی جب عدالتوں میں3 لاکھ 89 ہزار 392 مقدمات زیر التوا تھے۔

جب ارکان اور اسپیکر راجا پرویز اشرف نے وزیر مملکت سے عدالتوں میں ججز کی تعیناتی نہ کرنے کی وجہ بتانے کو کہا تو وزیر نے کہا کہ اس میں ان کی وزارت یا وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں اور کہا کہ جج خود ’عدلیہ کو کنٹرول اور اس کی نگرانی کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو ججز کے نام تجویز کرنا جوڈیشل کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن افسوس کہ کافی عرصے سے جوڈیشل کمیشن کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔

شہادت اعوان کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ عدلیہ کی جانب کیوں دیکھ رہی ہے، جب ایک ادارہ صحیح طریقے سے کام نہیں کرے گا تو یہ پارلیمان کا کام ہے کہ وہ اسے دیکھے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ عدالتی کمیشن فریقین کے مسائل کو دیکھنے کے بجائے دیگر مسائل پر توجہ دینے میں مصروف رہا، انہوں نے سنیارٹی کی بنیاد پر ججز کے میرٹ کی بنیاد پر تقرر پر بھی زور دیا۔

اسپیکر نے اس صورتحال کو ’خطرناک‘ قرار دیا اور اس معاملے کو قانونی اصلاحات کمیٹی کے پاس بھیج دیا اور کہا کہ وہ ججز سے رجوع کرے تاکہ خالی آسامیوں کو پُر کیا جا سکے اور کیسز کے بیک لاگ کو ختم کرنے کے لیے طریقہ کار تجویز کیا جائے۔

سبسڈی واپس لینے پر احتجاج

قبل ازیں اراکین نے اپنی تقاریر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بجلی کے نرخوں پر سبسڈی واپس لینے کے حکومتی فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے اس صنعت کو مزید نقصان پہنچے گا جو برآمدات میں کمی کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے شیخ فیاض الدین کے ایک سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکریٹری برائے توانائی رانا ارادت شریف نے ایوان کو بتایا کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر سبسڈی واپس لینا پڑی، انہوں نے کہا کہ ایسا ’مجبوری میں اور نہ چاہتے ہوئے‘ کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں