پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی منیجمنٹ نے چارج سنبھالتے ہی جس طرح انقلابی فیصلوں کی نوید سنائی تھی وہ اب آہستہ آہستہ غبارے سے نکلنے والی ہوا کی مانند ہوا میں اڑتے جارہے ہیں۔ اگرچہ منیجمنٹ کا یہ مؤقف بھی درست ہے کہ ابھی 4 ماہ ہی گزرے ہیں اس لیے کسی بھی نتیجہ خیز حکمت عملی کا پیمانہ مقرر کرنا مناسب نہیں ہے اور بہت سے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مزید وقت درکار ہے لیکن ہر گزرتا ہوا دن ان کے الفاظ کی نفی کررہا ہے۔

پی سی بی نے اپنے مستقبل کے روڈ میپ کے لیے جو بھی اہداف مقرر کیے ہیں ان میں سے سب سے اہم نکتہ جوان خون کو قومی ٹیم میں شامل کرنا ہے۔ قومی ٹیم گزشتہ 2 سالوں سے بابر اعظم کی قیادت میں ملی جلی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی آرہی ہے اور اکثر کھلاڑی نوجوان ہیں جن کا تجربہ تو کم ہے لیکن وہ باصلاحیت بھی ہیں اور محنتی بھی۔

پی سی بی نے افغانستان کے خلاف بابر اعظم سمیت چند سینیئر کھلاڑیوں کو آرام دیا اور ان کی جگہ چند نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا۔ پی سی بی کا یہ احسن قدم تھا اور اگر اس تجربے کا مقصد نوجوان ٹیلنٹ کو اجاگر کرنا تھا تو اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ جن نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا انہوں نے پی ایس ایل میں شاندار کارکردگی دکھائی تھی۔ اس لحاظ سے ان کا حق بھی تھا کہ وہ قومی ٹیم تک رسائی حاصل کرسکیں۔ لیکن اگر ان تبدیلیوں کا مقصد کسی کو سبق سکھانا تھا تو شاید ان کی سبکی ہوئی ہوگی کیونکہ بغیر تیاری کے انٹرنیشنل سطح پر کھیلنے والے کھلاڑی زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔

افغانستان کی ٹیم اگرچہ پاکستان کے مقابلے کی نہیں ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں میں جس طرح اس نے پاکستان کو لوہے کے چنے چبوائے ہیں وہ معنی خیز ہے۔ گزشتہ ورلڈکپ میں لیڈز میں افغانستان کی ٹیم جس طرح جیت کے قریب پہنچ گئی تھی اس نے پاکستان ٹیم منیجمنٹ کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ پاکستان ٹیم اس میچ میں شکست کے دہانے پر پہنچ گئی تھی تاہم آخری لمحات میں عماد وسیم نے اپنے حواس بحال رکھے اور میچ جتوادیا۔

ٹی20 ورلڈکپ میں دبئی میں بھی پاکستان ٹیم ایک مرحلے پر مشکلات کا شکار تھی لیکن آصف علی کے پے در پے 2چھکوں نے صورتحال کو قابو میں کرلیا تھا۔ ایشیا کپ میں بھی پاکستان یقینی طور پر شکست سے دوچار تھا لیکن آخری اوور میں نسیم شاہ نے شاندار بیٹنگ کرکے میچ افغانستان سے چھین لیا تھا۔

پاکستانی ٹیم سیلکٹرز نے ان تمام حقائق کے باوجود کہ افغانستان کی ٹیم ہمیشہ سے پاکستان کے لیے مشکل حریف رہی ہے، 3 میچوں کی سیریز کے لیے ٹیم کے 5 اہم کھلاڑیوں کو آرام دے کر نوجوان کھلاڑیوں کو منتخب کیا جن کا بہرحال انٹرنیشنل کرکٹ کا تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر افغانستان کی یہ ہوم سیریز تھی اس لیے شارجہ کی پچ جو ہمیشہ سے پراسرار رہی اس سیریز میں افغانستان نے اسپنرز کے لیے موزوں بنوائی اور پورا فائدہ اٹھایا۔ ان کے 2 اسپنرز راشد خان اور مجیب الرحمٰن دنیا کے بہترین اسپنرز مانے جاتے ہیں، ان کی موجودگی میں یہ اسپن وکٹ خطرناک بن گئی تھی۔

پاکستان نے اس سیریز میں صائم ایوب اور محمد حارث کو بطور اوپنرز کھلایا جو مجموعی طور پر ناکام رہے۔ صائم نے اگرچہ آخری میچ میں 49 رنز بنائے لیکن وہ اننگ محتاط اور غیر روایتی تھی۔ پاکستان نے باؤلنگ میں احسان اللہ اور زمان خان کو شامل کیاجو کسی حد تک موثر رہے لیکن بیٹنگ کی ناکامی نے باؤلنگ کو بھی رسوا کرادیا۔

پاکستان کے لیے فکر کی بات یہ تھی کہ اس کے 2 سینیئر کھلاڑی عبداللہ شفیق اور نسیم شاہ کی کارکردگی انتہائی خراب رہی۔ پاکستان نے تیسرا اور آخری میچ جیت تو لیا لیکن سیریز جیتنے کے بعد افغانستان کی ٹیم غیر سنجیدہ نظر آرہی تھی جس کا نتیجہ پاکستان کے حق میں گیا۔

اب کچھ ہی دنوں میں نیوزی لینڈ کی ٹیم 5 ایک روزہ اور 5 ٹی 20 میچ کھیلنے پاکستان آرہی ہے۔ نیوزی لینڈ نے اپنے اسکواڈ کا اعلان کردیا ہے جس میں زیادہ تر نوجوان اور کم تجربہ کار کھلاڑی شامل ہیں کیونکہ نیوزی لینڈ کے سپر اسٹارز آئی پی ایل میں مصروف ہیں۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم افغانستان کے مقابلے میں کمزور بھی ہے اور کم تجربہ کار بھی۔ تو کیا پی سی بی کے ارباب اختیار اس کمزور ٹیم کے خلاف ان نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیں گے جنہوں نے افغانستان کی مضبوط ٹیم کا سامنا کیا تھا؟ کچھ ذرائع کہہ رہے ہیں کہ پی سی بی اس سیریز کو سنجیدگی سے لے رہی ہے کیونکہ یہ سیریز آئی سی سی کی سپر چیمپیئن شپ کا حصہ ہے اور مزید شکست پاکستان کو پوائنٹس ٹیبل پر نیچے لے جاسکتی ہے۔ اس لیے بابر اعظم سمیت باقی تمام سینیئر کھلاڑیوں کی واپسی ہوگی ویسے بھی بابر اعظم سمیت کوئی بھی سپر اسٹار کمزور ٹیموں کے خلاف کھیلنے کا موقع ضائع نہیں کرتا ہے کیونکہ اس سے رنز بھی بنتے ہیں اور رینکنگ بھی بڑھ جاتی ہے۔

تاہم ناقدین اس بات پر سخت تنقید کررہے ہیں کہ جب کمزور ٹیم سامنے ہے تو نوجوان کھلاڑیوں سے اجتناب کیوں برتا جارہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بابر اعظم کو ریسٹ دے کر بورڈ نے ٹیم کا شیرازہ بکھیر دیا ہے لیکن اب جبکہ واقعی ریسٹ دیا جاسکتا تھا تو بورڈ سینیئر کھلاڑیوں کو کھلانا چاہتا ہے اور ان سینیئرز کے واپس آجانے سے بہت سے نوجوان کھلاڑی تاریکیوں میں چلے جائیں گے۔

سابق فاسٹ باؤلر عاقب جاوید نوجوان کھلاڑیوں کو بغیر تیاری کے افغانستان کے خلاف کھلانے کو غلط حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انٹرنیشنل پریشر کو سمجھنے کے لیے پہلے ان لڑکوں کی بھرپور تیاری ہونی چاہیے تھی اور نوآموز کھلاڑیوں کو کچھ تجربہ کار بلے بازوں کے ساتھ بیٹنگ پر بھیجنا چاہیے تھا کیونکہ پریشر کو سمجھنے کے لیے دونوں جانب سے اسٹرائیک ضروری ہوتی ہے۔

پی سی بی نے افغانستان کے خلاف تو اپنا ینگ ایڈونچر پورا کرلیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ ینگ ایڈونچر نیوزی لینڈ کے خلاف بھی جاری رہے گا؟ اگر ایسا ہوا تو ماہرین پُرامید ہیں کہ صائم ایوب اور محمد حارث اپنے ٹیلنٹ کا بھرپور مظاہرہ کرسکیں گے کیونکہ پچ سے لےکر گراؤنڈ اور کراؤڈ اپنا ہوگا۔ بورڈ اس سیریز میں اسپنر اسامہ میر کو موقع دینا چاہتا ہے جس کا مطلب ہے کہ شاداب خان کی کارکردگی سے بورڈ ناخوش ہے۔ اسامہ میر گزشتہ پی ایس ایل کے سب سے کامیاب اسپنر تھے اور انہوں نے 17 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

پی سی بی نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں ایک جانب تو تمام سینیئر کھلاڑیوں کو واپس لاناچاہتا ہے تو دوسری طرف کپتان بابر اعظم کے گروپ کو بھی کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بورڈ، ٹیم کے نائب کپتان شاداب خان کو ہٹا کر شان مسعود یا شاہین شاہ آفریدی کو مستقل بنیادوں پر نائب کپتان مقرر کرنا چاہتا ہے۔ شان مسعود کو جنوری میں نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں نائب کپتان مقرر کیا گیا تھا جس پر بابر اعظم نے خفگی کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے ورلڈکپ سے قبل یہ آخری موقع ہوگا کہ اپنے اسلحہ خانے کے سب ہتھیاروں کا جائزہ لے سکے۔ لیکن جس طرح بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ عارضی بنیادوں پر فیصلے لے رہی ہے اس سے ٹیم کی کمزوریاں عیاں ہوتی جارہی ہیں جو کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بھی اثر ڈال رہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں