مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں نے ایک ٹائم لائن رکھی ہوئی ہے کہ ستمبر میں اگلا چیف جسٹس آنا ہے تو اس سے پہلے پہلے جو سہولت کاری کرنی ہے کرلو، پوری قوم یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔

راولپنڈی میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ جس الیکشن کی بات کی جارہی ہے اور جو عمران خان مانگ رہا ہے، میں لکھ کر دیتی ہوں کہ الیکشن ہوں گے، یہ ہار جائے گا پھر یہ انہیں الیکشن کو نہیں مانے گا اور اگلے 5 سال تک اسی کو لے کر بیٹھا رہے گا۔

مریم نواز نے عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے فیصلے جانبدارانہ ہیں، آپ نے الیکشن کمیشن، وزارت دفاع، حکومت، پارلیمان اور وزیراعظم، وزارت خزانہ کا بھی کردار لے لیا، تو اگر آپ نے سیاست کرنی ہے تو پھر قانونی فیصلے پارلیمان کرلیتی ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ آپ نے کہا کہ سیاسی جماعتیں مشاورت کرلیں، بھئی سیاسی جماعتیں تو کرلیں گی مشاورت آپ بھی ذرا اپنے برادر ججز کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرلیں، آپ کچھ کہہ رہے ہیں، باقی سپریم کورٹ کچھ کہہ رہی ہے۔

انہوں نےکہا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے آپس میں اختلافات ہوتے ہیں تو اس کی وجہ ہے کیوں کہ ان کے نظریات مختلف ہوتے ہیں، ایجنڈے مختلف ہوتے ہیں لیکن آپ کے نظریے سوچ میں فرق نہیں، آپ نے آئین و قانون پر فیصلے کرنے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ 2018 نہیں ہے، ہوگیا جو ہونا تھا جو ظلم ملک، قوم معیشت کے ساتھ ہونا تھا وہ ہوگیا۔

مریم نواز کاکہنا تھا کہ جس آئین کا اطلاق پنجاب پرہوتا ہے اس کا اطلاق خیبرپختونخوا پر کیوں نہیں ہوتا، قوم کیا سمجھے کہ سارا جھگڑا ہی پنجاب کا ہے؟

آپ کو اس وقت جذباتی ہونا چاہیے تھا جب منتخب وزیراعظم کو نکالا گیا’

مریم نواز نے کہا کہ جب الیکشن کا کیس چل رہا تھا تو سننے کو ملا کہ چیف جسٹس جذباتی ہوگئے، آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا جب منتخب وزیراعظم کو دفتر سے نکالا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت آپ جذباتی نہیں ہوئے کہ جب آئین و قانون پر چلنے کی پاداش میں آپ کے بھائی جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلِ خانہ کو سڑکوں پر رلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

مریم نواز نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی جنہوں نے جنرل فیض کے ہاتھوں یرغمال بننے سے انکار کردیا اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے کہ ناانصافی نہیں کروں گا اور ریٹائر ہوگئے لیکن ان کا کیس ابھی تک سپریم جوڈیشل کونسل میں لٹکا ہوا ہے، چیف جسٹس صاحب آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا۔

مریم نواز نے کہا کہ چیف جسٹس آپ نے شہباز شریف سمیت ساری حکومت کو یہ طعنہ تو دے دیا کہ کل جیل میں تھے اور آج پارلیمان میں تقریریں کررہے ہیں، ذرا یہ بھی کہا ہوتا کہ کچھ ایسے بزدل بھی ہیں کہ جب ان کے پاس عدالتی حکم نامہ آتا ہے تو وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں انتخابات التوا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ’آج جب آپ پارلیمنٹ جاتے ہیں، تو آپ کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں جو کل تک جیلوں میں تھے، وہ اب وہاں تقریریں کر رہے ہیں، انہیں عزت دی جا رہی ہے کیوں کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں‘۔

’فل کورٹ کا مطالبہ ناجائز نہیں تھا‘

چیف آرگنائز مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ فل کورٹ کا مطالبہ ناجائز نہیں تھا، اگر کوئی کہے کہ بینچ کی بات پر ہمیں اعتبار نہیں تو کیا ردِ عمل ہوتا یہی کہ بنادو فل بینچ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ سپریم کورٹ میں مدعی کون تھا؟ مقدمہ عمران خان اور پی ڈی ایم میں شامل 11 جماعتوں کا بھی تھا لیکن ان جماعتوں کے وکلا کو بار کونسلز کے وکلا،الیکشن کمیشن کو نہیں سنا گیا، بات اگر سنی گئی تو صرف تحریک انصاف اور اسد عمر کی سنی گئی جسے بطور وزیر خزانہ خود اس کی اپنی جماعت نے اٹھا کر باہر بھیج دیا تھا۔

مریم نواز نے کہا ہے کہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں نے ایک ٹائم لائن رکھی ہوئی ہے کہ ستمبر میں اگلا چیف جسٹس آنا ہے تو اس پہلے پہلے جو سہولت کاری کرنی ہے کرلو، پوری قوم یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔

’کسی آمر کو کٹہرے میں لانے کی جرأت نہیں کی گئی‘

انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی یہ نہیں کہ منتخب وزرائے اعظم کو نکالتے رہے بلکہ یہ ہے کہ طاقت کے آگے بھی سر جھکایا اور آمروں کے آگے بھی سر جھکایا۔

مریم نواز نے کہا کہ منتخب وزرائے اعظم کو نکالتے رہے، سزائے دیتے رہے لیکن کسی ڈکٹیٹر کو بھی کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنے کی ہمت نہیں کی گئی۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ جب پی سی او اور ایل ایف او کے نیچے ججز حلف اٹھا رہے ہوتے تھے تو منتخب وزیراعظم کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگایا کر عدالت میں لے کر جایا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں 40 برس آمریت رہی ہے، کسی منتخب وزیراعظم نے اپنی مدت کبھی پوری نہیں کی، 4 ڈکٹیٹر آئے جنہوں نے دھونس سے 10، 10 سال اقتدار میں رہے لیکن کبھی کسی عدالت نے کسی آمر کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کی، طاقت کے آگے بھی سر جھکایا، آمروں کے آگے بھی سر جھکایا۔

ان کا کہنا تھا کسی نظریے کسی اصول کے لیے جیل جانا کتنے بڑے فخر کی بات ہے، میں 2 مرتبہ سزائے موت کی چکیوں میں رہ کر آئی ہوں لیکن ایک دن نہیں روئی نہ پچھتائی کیوں کہ مجھے معلوم تھا حق کا راستہ کبھی آسان نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ جن کے کوئی اصول نہیں ہوتے، کوئی مشن نہیں ہوتا، اصول مؤقف نہیں ہوتا وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ عمران خان کی ذاتی زندگی سے مجھے کوئی سروکار نہیں لیکن فارم بھر کر الیکشن لڑتے رہے اور اپنی بیٹی کو ظاہر نہیں کیا، یہ جھوٹ تم نے قوم سے بولا ہے اس لیے حساب ہوگا، ایک وزیراعظم کو اقامہ پر نکالا جاسکتا ہے تو آگلے امیدوار وزیراعظم کو اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر نکالا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ میں تو اس وقت نااہل ہوگئی تھی جب میں نے ایک بلدیاتی الیکشن بھی نہیں لڑا تھا، تو نااہلی سے ہمیں نہیں ڈراؤ تمہیں منہ پر کالا ڈبہ پہن کر آنے والوں کی عادت ہوگئی ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ جب عدالت بلاتی ہے تو کون سا بہانہ ہے جو یہ جماعت نہیں کرتی کوئی آکسیجن ماسک لگا لیتا ہے، کوئی ہسپتال لے بیڈ پر بیٹھ جاتا ہے کوئی ٹانگ پر پلاستر چڑھا لیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کی آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ تحریک انصاف کے وکیل کو کہہ رہے ہیں کہ مریم کے خلاف کوئی دھماکا کرو تو مجھے پہلے بتادینا تو جو ریٹائر ہو کر یہ کررہے ہیں وہ اپنی کرسیوں پر جب بیٹھے تھے اس وقت کیا کررہے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسا انتقام، بغض اور ظلم بھگت کر آئے ہیں اور آج بھی ڈرے نہیں، حق کی بات کررہے ہیں۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ آپ کس شخص کو واپس لانا چاہتے ہیں؟ وہ جو چار سال مسند اقتدار میں بیٹھ کر بس یہ سوچتا تھا کہ کس کا پنکھا، بلب کب اتارنا ہے اے سی کب نکالنا ہے، وہ انتقام میں اندھا شخص ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج آپ کہتے ہوں مہنگائی ہے، آٹے کی لائنیں لگی ہوئی ہیں مگر وہ مفت آٹے کی لائن لگی ہوئی ہے، جو لوگ لے کر جا رہے ہیں وہ ہاتھ اٹھا کر شہباز شریف کو دعا دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں