اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


فضائی میزبان اور ہوا باز یعنی جہاز کے پائلٹ دنیا کے ان چند افراد میں سے ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ سفر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے آپ ٹرین، بس یا کار میں اتنا طویل سفر نہیں کرسکتے اور نہ ہی اتنا فاصلہ عبور کرسکتے ہیں جتنا جہاز میں مسلسل اور بارہا سفر کرتے ہوئے ممکن ہوتا ہے۔ اکثر لوگ تمام سفر کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں خواہ ہوائی سفر ہو یا زمینی۔ کہاں سے کہاں گئے، کتنا خرچہ ہوا اور سب سے زیادہ دلچسپ یہ بات کہ کتنے میل سفر طے کیا۔

یہ ہوائی سفر کے فاصلے کا حساب بہت معنی رکھتا ہے۔ جہاز پر زیادہ سفر کرنے والوں میں تاجر برادری، اداکار اور بیرون ملک خدمات دینے والے ڈاکٹر وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ دنیا کی بہت سی ایئرلائن کمپنیاں زیادہ سفر کرنے والے مسافروں کو بہت سی سہولیات کے ساتھ ساتھ سستے ٹکٹ بھی دیتی ہیں۔ ان سہولیات میں جہاز کے اندر اول درجے کی نشستیں، ہوائی اڈے پر وی آئی پی لاونج کا استعمال اور جہاز میں جلدی سوار ہونے کے لیے بورڈنگ کارڈ کا اجراء شامل ہے۔

ایک ہوائی جہاز کے کپتان کے تجربے کا اندازہ اس کے فضا میں پرواز کیے گئے گھنٹوں سے لگایا جاتا ہے۔ ان گھنٹوں کو انگریزی میں Flight Hours کہا جاتا ہے یعنی ہوائی جہاز میں پرواز کیے گئے گھنٹے۔ یہ ایک اصطلاح ہے جو ہوائی جہاز کو اڑانے میں صرف کیے گئے وقت کی کل مقدار کا حوالہ دیتی ہے اور پائلٹ کے تجربے کا بنیادی پیمانہ ہے۔ اس تجربے میں موسم سے نبرد آزمائی، جہاز کے آلات کو پڑھ کر سمجھنا اور باحفاظت ٹیک آف اور لینڈنگ کرنے جیسی مہارتیں شامل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر 2009ء میں دریائے ہڈسن نیویارک میں ائیربس کا جہاز باحفاظت اتارنے والے کپتان سالن برجر کا تجربہ 20 ہزار گھنٹے کا تھا۔

ہوائی جہاز میں پرواز کیے گئے گھنٹوں کو Flight Hours کہتے ہیں
ہوائی جہاز میں پرواز کیے گئے گھنٹوں کو Flight Hours کہتے ہیں

فضائی میزبانوں کا تجربہ ماپنے کے لیے یہ گھنٹے مرکزی نہیں لیکن ثانوی حیثیت ضرور رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں فضائی میزبان ایک مہینے کے اندر 100 گھنٹے سے زیادہ کی پرواز نہیں کرسکتے۔ ضروری نہیں کہ یہ 100 گھنٹے پورے کیے جائیں لیکن اگر ہو بھی جائیں تو اس حد سے زیادہ نہیں بڑھا جاسکتا۔ اوسطاً سیکڑوں لوگوں سے روز ملنا اور انہیں سنبھالنا بھی تو اپنے آپ میں ایک عظیم تجربہ ہے آخر۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ بہت سے مسافر ہوائی جہاز کے سفر میں طے کیے گئے فاصلے کا حساب رکھتے ہیں تو وہ اس کی تفصیل کا اندراج مخصوص نوٹ بکس میں کرتے ہیں جو اسی لیے بنائی جاتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مشہور شخصیات کے آٹوگراف لینے کے لیے آٹوگراف بُک رکھی جاتی ہے۔

2007ء میں ایک مرتبہ کویت کی پرواز پر سروس ختم ہونے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد میں جہاز کے اندر مدھم روشنی میں (کیونکہ آدھی رات کا وقت تھا) معمول کے گشت پر تھا تو ایک صاحب نے معمول کے ہی مطابق میرا بازو پکڑ کر روکنا چاہا۔ میں رُک گیا۔ وہ نشست سے کھڑے ہوئے اور سرگوشی میں کہنے لگے کہ ’سر کچھ بات کرنی ہے‘۔ میں ان کو ساتھ گے-لی (عملے کے کام کرنے کی جگہ) میں لے آیا۔ سلام دعا ہوئی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے اور پھر کہا کہ سر چھوٹا کرنا ہے۔ میں سمجھا کاروبار کے بارے میں مشورہ مانگ رہے ہیں۔ میں نے مشورے دینا شروع کر دیے کہ کچھ بڑا کرنا چاہیے۔ آخر انہوں نے انگشتِ صغیرہ بلند کی تو معلوم ہوا کہ مدعا کیا ہے۔ پھر ان کو بیت الخلا کی راہ دکھائی۔

بہت سے مسافر ہوائی جہاز کے سفر میں طے کیے گئے فاصلے کا حساب رکھتے ہیں
بہت سے مسافر ہوائی جہاز کے سفر میں طے کیے گئے فاصلے کا حساب رکھتے ہیں

راہ دکھا کر مڑا ہی تھا کہ پیچھے ایک اور صاحب کھڑے تھے۔ میں نے ان کا بھی ’بزنس پلان‘ پوچھا تو کہنے لگے نہیں میں تو پانی پینے آیا ہوں۔ ان کو میں اچھا لگا اور کہنے لگے کہ میں کافی سفر کرتا ہوں اور جہاز کے عملے کے آٹوگراف بھی لیتا ہوں۔ پھر انہوں نے میرا آٹوگراف لیا اور اپنی آٹوگراف بُک بھی دکھائی جس میں دنیا جہان کے فضائی میزبانوں کے دستخط مع ان کے اور ایئر لائن کے نام کے اس میں موجود تھے۔

وہ صاحب بلاشبہ اب تک سیکڑوں گھنٹے پرواز کرچکے ہوں گے کیونکہ 2022ء میں وہ میرے ساتھیوں کو ایک پرواز پر ملے اور اسی آٹو گراف بُک کے اندر میرے دستخط بھی موجود تھے جس کی تصویر میرے ساتھی نے مجھے بھیجی۔ میں اگر کبھی مشہور ہو گیا تو وہ پہلے شخص ہوں گے کہ جن کے پاس میرا پہلا آٹوگراف موجود ہے۔ اس لیے میں یہاں ان کا نام اور پتا نہیں لکھ رہا تاکہ ان کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔

  آٹوگراف بک میں موجود میرے دستخط
آٹوگراف بک میں موجود میرے دستخط

میں نے 15 سال بطور فضائی میزبان اپنی خدمات سر انجام دی ہیں۔ اگر کھینچ تان کر بھی حساب کتاب کروں تو میں کم و بیش 13 ہزار گھنٹے فضا میں گزار چکا ہوں۔ یہ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ بنتا ہے۔ میلوں اور کلومیٹروں کا اندازہ نہیں لگا سکا کہ میرا حساب ذرا کم زور ہے۔ آپ خود سوچ لیں کہ ڈیڑھ سال اڑتے رہیں تو کتنا فاصلہ طے کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال سے اتنا تو سُپر مین نہیں اڑا ہوگا جتنا میں اڑ چکا ہوں۔ اگر مسلسل اتنی پرواز کی جائے تو شاید پڑوس والی اینڈومیڈا گیلیکسی تک تو پہنچا جاسکتا ہوگا۔

لیکن اب زمینی نوکری پر آنے کے بعد روز صرف 17 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہوں جس میں دفتر آنا اور جانا شامل ہے۔ اس حساب سے اب زمین سے قریب والی گیلیکسی تو نہیں البتہ گھر سے قریب والی گیلیکسی مارکیٹ پہنچا جاسکتا ہے بس۔

تبصرے (0) بند ہیں