سوڈان کا دارالحکومت خرطوم زوردار دھماکوں کی آواز سے گونج اٹھا ہے جہاں جنگ بندی کے لیے عالمی برادری کے مطالبات کے باوجود فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے درمیان لڑائی چوتھے روز بھی جاری ہے اور ہلاکتوں کی تعداد 200 کے قریب پہنچ گئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق سوڈان میں اقتدار کے حصول کے لیے ایک ہفتے سے جاری کوششیں مہلک ترین تشدد میں تبدیل ہوگئی ہیں جہاں 2021 میں فوجی حکومت قائم کرنے والے فورسز کے دو جرنیلوں آرمی چیف عبدالفتح البرہان اور ان کے نائب طاقت ور پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے کمانڈر محمد ہمدان دیگلو کے درمیان حکومت کی لڑائی ہے۔

جی 7 ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان جاپان میں والے اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ سوڈان میں ہونے والی یہ لڑائی عام شہریوں کی سیکیورٹی اور تحفظ کو خطرات سے دوچار کر رہی ہے اور سوڈان کی جمہوری منتقلی کو بحال کرنے کی کوششوں کو کمزور کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جی 7 کے وزرا کی طرف سے فوری طور پر لڑائی ختم کرنے کے مطالبات کے باوجود بھی دارالحکومت خرطوم میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔

دارالحکومت خرطوم کے ایک رہائشی نے کہا کہ اکثر بمباری فجر کے وقت 4 بجے شروع ہوتی ہے اور کچھ گھنٹوں میں ختم ہو جاتی ہے لیکن آج وہ بند نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ہم سو نہیں پائے۔

رپورٹ کے مطابق فوج کے درمیان لڑائی کی وجہ سے فضائی طیاروں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور خرطوم آنے اور جانے والی پروازوں کو بھی معطل ہونے پر مجبور کردیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہوں نے سوڈان کے دونوں جرنیلوں سے بات کی ہے اور جنگ بندی کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے۔

بعدازاں کمانڈر محمد ہمدان دیگلو نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ انٹونی بلنکن کے ساتھ ان کی بات چیت کے بعد پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز 24 گھنٹے کی جنگ بندی کی منظوری کی توثیق کرتا ہے تاکہ شہریوں کو محفوظ راستہ دینے اور زخمیوں کے انخلاء کو یقینی بنایا جا سکے۔

تاہم فوج نے آر ایس ایف کمانڈر کے بیان کو دو ٹوک مسترد کرتے ہوئے فسیبوک پر جاری کردہ بیان میں خبردار کیا کہ ’ہم جنگ بندی کے حوالے سے کسی ثالث یا عالمی برادری کے تعاون کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں اور باغیوں کی طرف سے 24 گھنٹے کی جنگ بندی خود جارحانہ شکست سے بچانے کا طریقہ ہے جو کہ اگلے 24 گھنٹوں میں ان کو نصیب ہوگی۔ ’

نٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکی افارتی عملے پر حملہ کیا گیا ہے جو کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

علاوہ ازیں یورپی یونین نے کہا کہ سوڈان میں تعینات اس کے سفارت کار کے گھر پر حملہ کیا گیا ہے، تاہم وہ محفوظ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دارالحکومت خرطوم میں دونوں فورسز کے درمیان لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب آر ایس ایف کو فوج میں شامل کرنے کے منصوبے پر برہان اور دیگلو کے درمیان اختلافات ہوئے۔

دونوں فریقین کا دعویٰ کیا کہ انہوں نے اہم مقامات پر قبضہ کرلیا ہے، جس میں دارالحکومت کا ایئرپورٹ اور صدارتی محل بھی شامل ہے لیکن ان کے دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت میں جاری جھگڑا بہت بڑا ہے جو طویل عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔

سوڈان میں اقوام متحدہ کی مشن کے سربراہ وولکر پیرتھیس نے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ اب تک 185 افراد ہلاک اور 1800 لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹرز کی یونین نے ایک بیان میں کہا کہ جھڑپوں میں اب تک عام شہریوں سمیت ایک سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں تاہم یہ تعداد حتمی نہیں ہے کیونکہ خراب حالات کی وجہ سے کئی افراد کو ہسپتال تک نہیں پہنچایا جا سکا ہے۔

ڈاکٹرز یونین نے خبردار کیا کہ لڑائی کی وجہ سے ہسپتالوں کو بھاری نقصان پہنچا ہے جہاں کچھ ہسپتالیں ’آؤٹ آف سروس‘ ہو چکی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ خرطوم کے متعدد ہستپالوں میں خون، منتقلی کا سامان اور دیگر ضروری سامان ختم ہو چکا ہے۔

بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) نے کہا کہ شمالی دارفور ریاست میں اب بھی واحد ہسپتال میں 183 زخمی مریضوں کی اطلاع دی ہے جن میں سے 25 کی موت ہو چکی ہے۔

ایم ایس ایف کے سائرس پے نے کہا کہ زخمیوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں جو فائرنگ کے تبادلے میں پھنس گئے تھے جن میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں۔

ایم ایس ایف اور سیو دی چلڈرن کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تین ملازم بھی شامل تھے۔

متعدد فلاحی تنظیموں نے ملک میں عارضی طور پر اپنی سروسز معطل کردی ہیں جہاں ملک ایک تہائی آبادی امداد کی شدید ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر مارٹن گریفتھس نے کہا کہ یہ لڑائی پہلے سے ہی نازک صورت حال سے دوچار تصادم کو بڑھا رہی ہے جس سے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کو سوڈان بھر میں 250 سے زائد پروگراموں میں سے بہت کو عارضی طور پر بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔

صدر عبدالفتاح السیسی نے دونوں فریقوں سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مصری فوجی ٹرینرز کی واپسی پر کام کر رہے ہیں جنہیں ہفتے کے روز آر ایس ایف فورسز نے فضائی اڈے سے پکڑا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں