پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے عدالتی تحفظ کی خواہاں، حکومت کا عدم اعتماد

21 اپريل 2023
فواد چوہدری نے مذاکرات کے لیے ماحول سازگار بنانے پر زوردیا—فوٹو: ڈان
فواد چوہدری نے مذاکرات کے لیے ماحول سازگار بنانے پر زوردیا—فوٹو: ڈان

حکومتی اراکین اور اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان سپریم کورٹ کی جانب سے ایک ہفتے کے اندر سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنے سے متعلق اختلافات سامنے آگئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی مذاکرات کو عدلیہ کے ’قانونی تحفظ‘ کی خواہاں ہے اور حکومتی اتحاد عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے مذاکرات کی تجویز کی حمایت کی لیکن کہا کہ اس پہلے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہو۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی بنیاد شرط یہ ہے کہ مذاکرات ’آئین کی حدود سے باہر‘ نہیں ہونے چاہئیں، سپریم کورٹ نے انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ برقرار رکھ کر ایک اچھا حکم جاری کیا ہے۔

فواد چوہدری کے مطابق انتخابات کی تاریخ کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھائی جائے گی جیسا کہ عدالت نے انتخابات پر مذاکرات کے لیے واضح ٹائم فریم مقرر کردیا ہے، جس کے تحت ایک ہفتے کے دوران یہ مکمل ہونے ہیں۔

انہوں نے پی ٹی آئی کارکنان پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کو مذاکرات کے لیے نقصان دہ کوششیں قرار دیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے 3 ہزار 500 کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ناقابل فہم کشیدگی سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات بڑھیں گے۔

پی ٹی آئی کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ہم اراکین پارلیمنٹ ہیں اور ہم ایک دوسرے ملتے رہتے ہیں، ہمارے ان کے ساتھ مذاکرات ہوسکتے ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن نہیں ہوتا جب اس طرح کا ظلم ہمارے ساتھ کیا جارہا ہو۔

انہوں نے مذاکرات شروع کرنے کے لیے حکومت پر زور دیا کہ سیاسی درجہ حرارت کم کریں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 27 اپریل کی تاریخ مقرر کرنے سے متعلق پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی میڈیا کو بتایا کہ عدالت نے ایک تاریخ دے دی ہے، جو کچھ ہمیں کرنا ہے وہ ڈیڈلائن گزرنے سے پہلے کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت میں ہونے والی پیش رفت پر پارٹی کے سربراہ سے بات کروں گا، ہم اپنے قائد سے بات کرنے کے بعد واپس آئیں گے۔

فیصلے پر تحفظات

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے عدالت کے گزشتہ فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے ان کی گفتگو کے بارے میں اے پی پی نے رپورٹ میں بتایا کہ مسئلے کے متبادل راستے یا قانونی ذرائع اختیار کرنے کے حوالے سے حتمی فیصلے پر نہیں پہنچے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ تمام چاروں وفاقی اکائیوں اور وفاقی دارالحکومت میں ایک ساتھ انتخابات سے انحراف کے بدترین نتائج اور پیچیدہ مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک بھر میں بروقت اور ایک ساتھ انتخابات قومی اتحاد قائم کرنے کے لیے بنیاد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک شہری کی جانب سے صوبوں اور وفاق میں ایک ساتھ انتخابات کے لیے دائر کی گئی درخواست پر اپنا مؤقف دے دیا ہے۔

’انتخابات سب کے لیے‘

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پی ٹی آئی کے اختلافات ہیں لیکن انتخابات صرف ان دونوں عناصر تک محدود نہیں ہیں۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر جماعت کا نکتہ نظر ہے لیکن انتخابات سب کے لیے ہیں۔

سراج الحق نے بتایا کہ میں نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سے کہا ہے کہ جو گیند انہوں نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے وہ سیاست دانوں کے حوالے کردینی چاہیے تاکہ وہ فیصلہ کریں کب اور کیسے انتخابات ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مشورہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں ایک نگران حکومت ہونی اہیے اور اگر پی ڈی ایم مرکز میں موجود ہے تو پھر شفاف انتخابات نہیں ہوں گے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اگر پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو ہوتے ہیں اور ایک نئی حکومت اقتدار میں آتی ہے اور عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو پھر بھی انتخابات شفاف نہیں ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں