ایم کیو ایم پاکستان کا ’غیرشفاف‘ مردم شماری کے خلاف احتجاج کا اعلان

اپ ڈیٹ 21 اپريل 2023
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے شہریوں سے احتجاج کی اپیل کی—فائل/فوٹو: ڈان
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے شہریوں سے احتجاج کی اپیل کی—فائل/فوٹو: ڈان

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے اصرار کیا ہے کہ کراچی کی آبادی تقریباً 3 کروڑ 50 لاکھ ہے اور شہر میں آباد تمام طبقات سے اپیل کی ہے کہ ’غیرشفاف ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعے غیرمنصفانہ‘ اقدام کے خلاف احتجاج کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ’قومی اتفاق رائے‘ تھی کہ اس غیر شفاف ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت شہر کی حقیقی آبادی شمار نہیں ہوسکتی۔

مردم شماری کا عمل ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی جاری ہے تاہم مرکز میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کے اہم اتحادی کی جانب سے تاحال عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ شہر کی آبادی کے غلط اعداد و شمار کسی صورت تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔

بہادرآباد میں پارٹی کے عارضی مرکز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے ڈیزائن میں سنگین غلطیاں ہیں جو روز اول سے حکام کی بدنیتی کی عکاسی کرتی ہیں۔

انہوں نے مردم شماری پر تنقید کرنے والی سیاسی جماعتوں کے کردار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عملی طور پر وہ صرف سیاست کر رہی ہیں کیونکہ وہ کوئی منظم اقدام نہیں کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے مقابلے میں دیہی سندھ میں ڈییجٹل مردم شماری کے بلاکس کی تعداد زیادہ رکھی گئی ہے تو اس کی وضاحت کون کرسکتا ہے۔

کنوینر ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں ایک بلاک میں مجموعی طور پر 187 گھرانے ہیں لیکن دیہی سندھ میں ایک بلاک میں 250 گھر شامل ہیں، ایک اندازے کے مطابق کراچی کی 50 لاکھ سے زائد آبادی اس ڈیزائن کے تحت کم کی گئی ہے، یہ بالکل ناانصافی اور شہریوں کی غیرشفاف گنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1970 سے قبل حیدرآباد اور سکھر کی مجموعی آبادی کراچی کی آبادی کا 40 بھی نہیں تھی، 1970 کے بعد مختلف مقامی، علاقائی اور معاشی مسائل کی وجہ سےشہر میں ’بڑے پیمانے‘ پر لوگوں کی آمد ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی اس قدر آمد اور ملک کے مختلف علاقوں اور پڑوسی ملکوں سے ہجرت کے باوجود شہر کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے‘۔

سربراہ ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ ’اب ہمیں مکمل یقین ہے کہ اس پر قومی اتفاق رائے ہے کہ اس ڈیجیٹل مردم شماری کے ڈیزائن کے تحت کراچی کی آبادی درست نہیں گنی جاسکتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایم کیو ایم پاکستان ہی تھی جس نے 2017 کی قومی مردم شماری کے بعد دوسری مردم شماری کے لیے حکام کو مجبور کیا کیونکہ اس میں سنگین غلطیاں تھیں۔

خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ اگر سندھ کے شہری علاقوں کی تعداد مختلف حربوں سے غلط پیش کی جاتی ہے تو پھر ہماری پارٹی سخت مزاحمت کرے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ صرف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے سیاست کر رہے ہیں ان کی صرف بیان بازی سے کراچی کے شہریوں کی مدد نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے حقوق اور آبادی کی درست گنتی کے لیے صرف بینرز لگانے سے کام نہیں ہوگا، اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور سیاسی عزم درکار ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں کراچی میں رہنے والے تمام طبقات سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ گھروں سے باہر آئیں، مردم شماری کے نام پر یہ ناانصافی کسی ایک برادری کے خلاف نہیں بلکہ کراچی میں رہنے والے تمام افراد کے خلاف ہے، یہ اسے بھی بدتر ہے جو کچھ ماضی میں مشرقی پاکستان کے سانحے پر کیا گیا تھا۔

انہوں نے مردم شماری کے پورے عمل پر سوال اٹھایا اور کہا کہ نیشنل ڈیٹا اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) تقریباً ایک کروڑ 91 لاکھ افراد کے لیے قومی شناختی کارڈ اور ب فارم جاری کرچکا ہے جس میں انہوں نے کراچی کو اپنا رہائشی مقام قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ایک کروڑ 91 لاکھ افراد نادرا میں رجسٹر ہیں جن کے شناختی کارڈ اور ب فارم میں ایڈریس کراچی کا ہے، یہ صرف کراچی کے شہریوں کے دستاویزات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ بھی لاکھوں افراد شہر میں رہتے ہیں لیکن شناختی کارڈ میں ان کا رہائشی مقام کراچی کے علاوہ دوسرے علاقے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں