’پَوِتراستھان‘ کی تاریخ اور مستقبل کا مؤرخ

تعین کرنا مشکل ہے کہ اس قوم کا کون سا ادارہ اور شعبہ کیا کام اور کیا کیا کام کرتا تھا
تعین کرنا مشکل ہے کہ اس قوم کا کون سا ادارہ اور شعبہ کیا کام اور کیا کیا کام کرتا تھا

’آپ مجھے جانتے ہیں؟‘

اس نے وسیع وعریض ہال میں بیٹھے افراد سے سوال کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔

’ہمیں جامعہ کی انتظامیہ نے بس اتنا بتایا ہے کہ آپ تاریخ دان ہیں اور ہم طلبہ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘ ایک آواز نے سب کی نمائندگی کی۔

’میں محض ایک تاریخ دان نہیں، وہ ہوں جس کا ایک قوم میں مستقبل کے مؤرخ کے نام سے بڑا ذکر تھا۔ اس قوم کو امید تھی کہ میں اس کی صحیح تاریخ لکھوں گا، میں نے لکھنا تو شروع کیا لیکن الجھن کا شکار ہوں‘۔

’کون سی قوم کیسی الجھن؟‘ کئی آوازیں گونجیں۔

’قوم تھی ’پَوِتراستھانی‘ اور الجھن یہ کہ میں تعین نہیں کر پارہا کہ اس قوم کا کون سا ادارہ اور شعبہ کیا کام اور کیا کیا کام کرتا تھا، ذمے داریوں اور اختیارات کی تقسیم کیا تھی؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب جو تاریخ کے طالب علم ہیں یہ گتھی سلجھانے میں میری مدد کریں۔‘

’ہم حاضر ہیں‘ پورا حال پکار اٹھا۔

’تو سنیے۔ کسی علاقے کو آزاد کروانا فوج کا کام ہے لیکن پوتراستھان کی تاریخ کچھ اور کہتی ہے۔ ایک ریاست جس پر پوتراستھان اور اس کے پڑوسی دیش دونوں کا دعویٰ تھا اس کا ایک حصہ قبائلی سویلینز نے دشمن کے چنگل سے چھڑوایا۔ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ پوتراستھان کی کوئی فوج نہیں تھی؟‘

’یقیناً ایسا ہی ہوگا۔‘ پہلی صف میں بیٹھے نوجوان نے بڑے اطمینان سے مؤرخ کے سوال کا جواب دیا۔

’اگر ایسا ہی تھا تو کئی پوتراستھانی حکمرانوں کے نام کے ساتھ جنرل کیوں لگا تھا؟ ان میں سے پہلے تو فیلڈ مارشل بھی تھے۔‘ مؤرخ نے یہ کہتے ہوئے حاضرین کو یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ’بتاؤ، اب کیا کریں؟‘

’میرے خیال میں یہ عہدے نہیں تھے، ماں باپ نے ان حکمرانوں کے نام جنرل اور فیلڈ مارشل رکھے ہوں گے، شاید یہ اس قوم کا احساس محرومی تھا، فوج نہیں تھی اس لیے فوجی عہدوں کو نام بنایا جانے لگا، جیسے غریب لوگ اپنے بچوں کے نام شہزادہ، راجا، نواب رکھ دیتے ہیں۔ یہ احساس محرومی ہی ہے کہ پوتراستھانیوں کی مصنوعات سے مقامات تک ہمیں جگہ جگہ عسکری، فوجی اور ڈیفنس لکھا ملتا ہے۔‘ ایک طالبہ نے یہ سب کہنے کے بعد اپنی چشمہ لگی آنکھوں سے یوں فخریہ انداز میں مؤرخ کو دیکھا جیسے کہہ رہی ہو ’لیجیے، چٹکی بجاتے میں مسئلہ حل کردیا۔‘

’بات دل کو لگتی ہے، لیکن یہ جو مختلف عہدوں پر تعینات رہنے والے بے شمار افراد کے سابقے ریٹائرڈ بریگیڈیئر، ریٹائرڈ کرنل اور جنرل ریٹائرڈ والے نظر آتے ہیں ان کا کیا کریں؟ کیا ماں باپ کے عاق کرنے کے بعد ان کے دیے ہوئے ناموں میں ریٹائرڈ لگالیا گیا؟‘ مؤرخ کے آخری فقرے پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔

دستویزات سے دفاع کے ذمے دار ایک ادارے کا سراغ ملتا ہے
دستویزات سے دفاع کے ذمے دار ایک ادارے کا سراغ ملتا ہے

’ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ ریٹائرڈ ہر فن مولا تھے۔ پوتراستھان کے ٹی وی چینلوں کا جو ریکارڈ دستیاب ہوا ہے وہ بتاتا ہے کہ تاریخ کا کوئی معاملہ ہو یا مخصوص تاریخ آگے پیچھے ہونے کا طبی مسئلہ، موضوع معیشت ہو یا خدا کی مَشِیّت، گفتگو سیاست پر ہو، خارجہ پالیسی پر، ماحول پر بات ہو یا کسی سیاست دان پر لاحول پڑھنا ہو، ٹاک شو میں یہ ریٹائرڈ اپنی رائے دیتے بلکہ اکثر تھوپتے نظر آتے تھے۔‘ مؤرخ نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا۔

’اس سے تو ان ہرفن مولاؤں کی فراغت کا بھی اشارہ ملتا ہے جو فارغ البالی کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘ ایک طالب علم نے نکتہ آفرینی کی۔

’اس قوم کے پاس دفاع کے لیے کوئی ادارہ تو ہوگا!‘ دوسرے طالب علم نے سوال اٹھایا۔

’دستاویزات سے ایک ایسے ادارے کا سراغ تو ملا تھا، لیکن جب یہ حقائق سامنے آئے کہ یہ ادارہ فلمیں اور ڈرامے بناتا، نغمے ریلیز کرتا اور دشمن کے بچوں میں علم پھیلاتا تھا، تو مؤرخین نے اپنے خیال سے رجوع کرلیا۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کا دفاع سیاسی جماعتیں کرتی تھیں ٹائیگرفورس، شیر جوان فورس اور انصار الاسلام جیسی اپنی تنظیموں کے ذریعے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اس قوم کے پاس فوج اور جوہری توانائی صرف پرامن مقاصد کے لیے تھی۔‘ مؤرخ نے جواب دیا۔

’سیاست دان ملک کا دفاع بھی کرتے تھے؟‘ بڑی حیرت سے استفسار کیا گیا۔

’ہاں، شواہد بتاتے ہیں کہ اپنا دفاع کرتے کرتے وہ دفاع کے ماہر اور آپس میں لڑتے لڑتے جنگ میں مَشّاق ہوگئے تھے۔‘ مؤرخ نے وضاحت کی۔

’وہ اپنے تنازعات عدالت میں کیوں نہیں لے جاتے تھے؟‘ دائیں طرف کی نشستوں سے سوال ابھرا۔

’عدالت کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات ہیں کہ تھی کہ نہیں تھی۔ بڑا ہی پیچیدہ معاملہ ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ جس عمارت کے آثار سے مقدمات کی ڈھیروں فائلیں ملی ہیں وہیں سے ٹرکوں کے ڈھانچے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ محققین الجھے ہوئے ہیں کہ یہ کورٹ کی عمارت تھی یا پورٹ کی جہاں ٹرکوں کے ذریعے سامان آتا جاتا تھا۔

’کچھ مؤرخین مانتے ہیں کہ منصف وجود رکھتے تھے لیکن چوں کہ ’ان کے بھی جذبات تھے‘ اس لیے وہ جذباتی ہوکر بڑی صفائی سے وکیل صفائی بن جایا کرتے تھے۔ ایسے ہی تختیوں پر ایک صاحب کے نام کے ساتھ چیف جسٹس درج ہے مگر کچھ اور دستاویزات جن میں اشتہارات کے تراشے سرفہرست ہیں ڈیم بنانے سے ان کی شدید دل چسپی کے مظہر ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صاحب چیف جسٹس نہیں ملک کے چیف انجنیئر تھے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ دریا کنارے جھونپڑی ڈال کر بس جائیں گے اور ڈیم بننے کے عمل کی نگرانی کریں گے، محمکہ آثار قدیمہ اس جھونپڑی اور صاحب جھونپڑی کی باقیات ڈھونڈھنے میں برسوں سے مصروف ہے۔‘ مؤرخ کے انکشاف پر سننے والے ششدر رہ گئے۔

جس عمارت کے آثار سے مقدمات کی ڈھیروں فائلیں ملی ہیں وہیں سے ٹرکوں کے ڈھانچے بھی برآمد ہوئے
جس عمارت کے آثار سے مقدمات کی ڈھیروں فائلیں ملی ہیں وہیں سے ٹرکوں کے ڈھانچے بھی برآمد ہوئے

’ملک میں عدلیہ نہیں تھی تو جھگڑوں کے فیصلے کون کرتا تھا؟‘ تعجب میں ڈوبی ایک آواز نے پوچھا۔

’روایات میں ایک پنچایت کا تذکرہ ملتا ہے جو سیاست دانوں کے بیچ مصالحت کرانے کے لیے لگائی گئی تھی۔ لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ پنچایت نہیں لگائی گئی تھی بلکہ اپنے ہی ایک فیصلے میں پھنسے ہوئے پنچ اس سے باہر نکلنے کے لیے زور لگا رہے تھے۔‘ مؤرخ نے صراحت کی۔

’پوتراستھان کی تاریخ سمجھنے کے لیے آپ صحافتی مواد سے مدد کیوں نہیں لیتے؟‘ بائیں طرف کی نشست سے سوال آیا۔

’کوشش کی تھی مگر ناکامی ہوئی۔ دراصل ملک میں صحافت اس قدر آزاد ہوگئی تھی کہ وہ خود اپنی آزادی سے اکتا گئی تھی اور بے قرار ہوکر گاتی تھی ’نہ کوئی امنگ ہے نہ کوئی ترنگ ہے، مری زندگی ہے کیا اک کٹی پتنگ ہے‘ آخر اس آزادی سے اکتا کر بہت سے صحافیوں نے خود کو از خود پابند کرلیا اور ایک سیاسی جماعت کے ترجمان اور غلام بن گئے کہ پھر ایک ایک سے پوچھتے ’کیا ہم کوئی غلام ہیں‘، ان کے لیے ’خان‘ ہی ہیڈلائن اور ریڈلائن تھا۔ ایک ایسے دور کا بھی پتا چلتا ہے جب پوتراستھان کا میڈیا کسی طاقت کا موڈ دیکھتے ہوئے موڈیا بن کر سب کچھ اس طاقت کے موڈ کے مطابق دکھاتا تھا۔‘ مؤرخ نے شرکاکی معلومات میں اضافہ کیا۔

’اُف یہ سب تو واقعی دماغ چکرا دینے والا ہے۔‘ کہنے والے نے اپنا سر پکڑ کر کہا اور نشست پر ڈھے سا گیا۔

’ابھی سے سر چکرا گیا! سوچیں مجھ پر کیا گزر رہی ہوگی۔ میں نے آپ کو پوتراستھانی تاریخ کی وہ حکایات تو سنائی ہی نہیں جنہیں تاریخ دان ناقابل یقین قصے کہانیاں قرار دے کر مسترد کرچکے ہیں۔ ان حکایات کے مطابق فوجی حکمران سیاست دان کے مشورے پر جنگ چھیڑ دیتے تھے اور سیاست دان جنرل کی رائے پر اسمبلیاں توڑ دیتے تھے، کبھی کسی کے ’اباجی‘ سرکاری امور میں دخیل تھے تو کہیں خاتون خانہ حکومتی معاملات چلاتی تھیں اور ان کی سَکھیاں تبادلے اور تقرریاں کراتی تھیں، معاملات سلجھانے کے لیے عمل سے زیادہ ’عملیات‘ کا سہارا لیا جاتا تھا، ’فیصلوں‘ میں اہلیت اور اساس کا کردار اہلیہ اور ساس ادا کرنے لگی تھیں، جنرل تجارت کر رہے تھے، صنعت کار صحافت کررہے تھے، کالم نگار خوابوں کی تعبیر بتارہے تھے، منصف باہم پنجہ لڑارہے تھے، کرکٹر سیاست کر رہے تھے اور سیاست دان مقدمات اور وکیل کر رہے تھے۔‘

’بس کردو بس۔ یہ ملک تھا یا پاگل خانہ۔‘ مؤرخ کے عین سامنے بیٹھا شخص کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیخا۔

’تم جھوٹ بول رہے ہو، اس طرح کی کوئی ریاست ہو ہی نہیں سکتی۔‘

’ایسی ریاست ہو بھی تو دو دن نہیں چل سکتی۔‘

’تم نے ایک فرضی کہانی سناکر ہمارا وقت ضائع کیا۔‘

شرکا پاگلوں کی طرح چیخ رہے تھے، ان میں سے کچھ مشتعل افراد آستینیں چڑھا کر مستقبل کے مؤرخ کی طرف بڑھ رہے تھے اور وہ بے چارہ حیران پریشان، ڈرا سہما دیوار سے لگا کھڑا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں