آئی ایس پی آر صاحب! عزت صرف ایک ادارے کی نہیں، ہر شہری کی ہونی چاہیے، عمران خان

اپ ڈیٹ 09 مئ 2023
عمران خان نے کہا کہ جو ادارہ کرپٹ اور دو نمبر لوگوں کو پکڑتا ہے وہ ادارہ مضبوط ہوتا ہے—تصاویر: آئی ایس پی آر/فیس بک
عمران خان نے کہا کہ جو ادارہ کرپٹ اور دو نمبر لوگوں کو پکڑتا ہے وہ ادارہ مضبوط ہوتا ہے—تصاویر: آئی ایس پی آر/فیس بک

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنی توپوں کا رخ پاک فوج کی جانب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہر شہری کی ہونی چاہیے اور جو ادارہ اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے وہ مضبوط ہوتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے روانہ ہونے سے قبل ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے لیے روانگی سے قبل میں 2 باتیں کرنا چاہتا ہوں، آئی ایس پی آر نے بیان دیا ہے کہ ادارے کی توہین کردی، فوج کی توہین کردی۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’ایک انٹیلی جنس افسر کا نام لے دیا، جس نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، آئی ایس پی آر صاحب! ذرا میری غور سے بات سنیں، عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہے، عزت قوم میں ہر شہری کی ہونی چاہیے‘۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ’میں اس وقت قوم کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں، 50 سال سے قوم مجھے جانتی ہے، مجھے کوئی جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے‘۔

ایک مرتبہ پھر اپنے الزامات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس آدمی نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور جب بھی تحقیقات ہوں گی میں یہ ثابت کروں گا یہ وہ آدمی تھا، اور اس کے ساتھ پورا ٹولہ ہے اور اس کے ساتھ کون ہیں وہ بھی آج کے سوشل میڈیا کے زمانے میں سب کو پتا ہے‘۔

’اپنی حکومت ہوتے ہوئے ایف آئی آر نہیں کٹوا سکے‘

عمران خان نے کہا کہ میری سوال یہ ہے کہ ’چونکہ اس آدمی کا نام آگیا تو ملک کا سابق وزیراعظم ایف آئی آر نہیں کٹوا سکا، جھوٹ اور سچ کا اس وقت پتا لگتا جب اس کے خلاف ایف آئی درج ہوتی، تحقیقات ہوتی، اگر یہ بے قصور تھا تو سامنے آجاتا‘۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اتنی طاقتور شخصیت کہ میں ایک سابق وزیراعظم، پنجاب میں اپنی صوبائی حکومت ہوتے ہوئے ایف آئی آر میں اس کا نام نہیں دے سکا‘۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’اس کے کہنے پر پنجاب کے جن 2 پولیس افسران نے حملہ آور کا بیان ریکارڈ کیا تھا، ڈی پی او گجرات اور سی پی او سی ٹی ڈی انہوں نے حکومت پنجاب کی بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے تحقیقات میں شامل ہونے سے منع کردیا، اس کے پیچھے کون تھا، کون اتنا طاقتور تھا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا پروپیگنڈا تھا کہ حملہ آور ایک دینی انتہا پسند تھا لیکن جب جے آئی ٹی میں ثابت ہوگیا کہ حملہ آور 3 تھے تو جے آئی ٹی کو سبوتاژ کیا گیا، سی ٹی ڈی کے 4 افراد نے اپنے بیانات تک تبدیل کرلیے‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نے تحقیقات کر کے کہا کہ ان چاروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے کیوں کہ انہوں نے تحقیقات سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، اس کے پیچھے کون تھا؟ کون اتنا طاقتور تھا۔

’جوڈیشل کمپلیکس میں وکلا کے بھیس میں آئی ایس آئی اہلکار تھے‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کے بعد میں ثابت کروں گا کہ ایک رات قبل آئی ایس آئی نے جوڈیشل کمپلیکس کو ٹیک اوور کیا، ثابت کروں گا کہ سی ٹی ڈی اور وکلا کے کپڑوں میں وہاں آئی ایس آئی (کے اہلکار) موجود تھے، ثابت کروں گا کہ وہاں ایک بریگیڈیئر بیٹھ کر سب کچھ مانیٹر کر رہا تھا، اس کا نام بھی بتاؤں گا‘۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’وہاں آئی ایس آئی کا کیا کام تھا، میں ثابت کروں گا کہ انہوں نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور پیچھے یہی آدمی تھا، مقتول ارشد شریف کی والدہ نے بھی اسی آدمی اور ٹولے کا نام لیا‘۔

سابق وزیر اعظم نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لیکن کوئی تحقیقات نہیں ہوئی، کس کی جرأت نہیں تھی کہ آگے بڑھے کیوں کہ یہ مقدس گائے ہے، قانون سے اوپر ہیں’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئی ایس پی آر صاحب! جب ایک ادارہ اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیتا ہے، وہ اپنی ساکھ بہتر کرتا ہے، جو ادارہ کرپٹ اور دو نمبر لوگوں کو پکڑتا ہے وہ ادارہ مضبوط ہوتا ہے‘۔

ساتھ ہی انہوں نے اپنے تعمیر کردہ ہسپتال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر شوکت خانم میں کوئی ڈاکٹر یا کوئی فرد غلط کام کرے تو ہم ایکشن لیتے ہیں تو ہمارے ادارے کی ساکھ بڑھتی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کیا آپ نے بنایا ہوا ہے کہ جو نام لیں، تو کہتے ہیں فوج کو برا بھلا کہا، یہ میری فوج ہے، میرا پاکستان ہے صرف آپ کا نہیں، ہمیں اس کا شاید آپ سے زیادہ خیال ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ حرکتیں کرنا کہ جو تنقید کرے اس کا منہ بند کردیں اس سے آپ ادارے کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘۔

’مجھے سیدھا وارنٹ دیں، جیل جانے کیلئے تیار ہوں‘

عمران خان نے کہا کہ میں آج یہ بھی کہہ دوں کہ آج میں جو جارہا ہوں وہاں کوئی پولیس، رینجرز، ایف سی اتنی بڑی فوج لا کر ملک کا پیسہ ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اگر کسی کے پاس وارنٹ ہے سیدھا میرے پاس وارنٹ لے کر آئے، میرے وکیل ہوں گے، میں خود ہی جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اتنے اخراجات کرنا کہ جیسے پتا نہیں کون سا ملک کا بڑا مجرم آرہا ہے، کوئی اس طرح کا ڈرامہ نہ کریں، سیدھی طرح وارنٹ دیں، مجھ پر کوئی کیس نہیں ہے لیکن میں ذہنی طور پر جیل میں جانے کے لیے تیار ہوں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ دوسری چیز ’یہ جو ڈرٹی ہیری نے منصوبہ بنایا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ٹولہ ہے، اگر اللہ نے ان کے ہاتھ میری جان لینی ہے میں اس کے لیے بھی تیار ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن میرا سوال ہے کہ کیا آپ لوگ تیار ہیں، جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں، جو اقتدار کے مزے لے رہے ہیں، پیسے بنا رہے اور این آر او لے کر پیسے بچا رہے ہیں، کیا آپ سب تیار ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہوسکتا ہے زیادہ بڑی تعداد میں قوم سڑکوں پر نہ نکلے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے اگر یہ قوم پھٹ گئی تو آپ سب کو اپنے آپ کو بچانا پڑے گا، چھپتے پھریں گے آپ، یہ جو بادشاہت بنی ہوئی ہے یہ سب دھل جائے گا تو آپ بھی تیار ہوجائیں، میں تیار ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آخر میں یہ بھی کہہ دوں کہ اگر ان چوروں، ڈاکوؤں اور ڈفرز کے نیچے زندگی گزارنی پڑے تو میں اللہ سے کہتا ہوں کہ مجھے اوپر لے جائے کیوں کہ ان کی غلامی سے موت بہتر ہے‘۔

پس منظر

خیال رہے کہ ہفتے کے روز اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی کے درمیان چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لیے پی ٹی آئی کی نکالی گئی احتجاجی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر پر سخت تنقید کی تھی۔

عمران خان نے ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر کا نام لے کر الزام لگایا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس شخص کا نام یاد رکھنا جس نے مجھے پہلے بھی دو بار مارنے کی کوشش کی۔

اس کے ردِعمل میں گزشتہ روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو من گھڑت، بدنیتی پر مبنی، افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ ایک سال سے یہ ایک مستقل طرز عمل بن گیا ہے جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔

فوج کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی حاضر سروس جنرل کے خلاف بیان دینے پر عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

بعد ازاں وزیر اعظم شہباز شریف کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے عمران خان نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں۔

سابق وزیراعظم کہا کہ کیا ایک ایسے شخص جو گزشتہ چند ماہ کے دوران 2 قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنا، کے طور پر میں شہباز شریف سے درج ذیل سوالات پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ کیا بطور پاکستانی شہری مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ان لوگوں کو نامزد کروں جو میرے خیال کے مطابق مجھ پر قاتلانہ حملے کے ذمہ دار تھے؟

تبصرے (0) بند ہیں