وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والی کشیدگی کے دوران سرکاری املاک اور تنصیبات پر حملوں کو دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیاں قرار دیتےہوئے خبردار کیا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والے شر پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔

قوم سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران نیازی کے معاملے پر نوٹس لیا اور پھر اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ عمران نیازی کی گرفتاری قانونی تھی، یہ فیصلہ اس امر کا ثبوت ہے کہ نیب نے قانون کے مطابق کارروائی کی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ملک دشمنی اور دہشت گردی کے پی ٹی آئی کے رویوں کو یکسر مسترد کردیا اور آئین اور قانون کا ساتھ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پولیس، رینجرز، قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں اور افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں انہوں نے انتہائی تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور گولیاں برساتے جتھوں سے عوام کے جان و مال کا تحفظ کیا۔

وزیراعظم نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ان دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ ملک دشمن سرگرمیوں سے فی الفور باز آجائیں ورنہ قانون ہاتھ میں لینے والے شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، آئین اور قانون کے مطابق ان کو قرار واقعی سزا ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ریاست اور نظریے کی حفاظت ہمیں اپنی جان سے عزیز ہے اور کسی کو اس کے خلاف سازش نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی ان کے مذموم ایجنڈے کو کامیاب ہونے دیں گے۔

’پاکستان کی سیاسی تاریخ بڑی تلخ رہی ہے‘

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ بڑی تلخ رہی ہے اور سیاست میں انتقامی کارروائیوں کا کبھی اچھا انجام نہیں نکلا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے ماضی کی ان تلخ حقیقتوں سے سبق سیکھا ہے اور سیاسی انتقام دفن کرکے قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے کی ایک نئی تاریخ لکھی جس سے میثاق جمہوریت کہتے ہیں۔

یہی وہ جذبہ اور سوچ تھی کہ عوام کے مطالبے اور آئینی طریقہ کار پر چلتے ہوئے ہم نے جب 11 اپریل 2022 کو حکومت کی ذمہ داری سنبھالی تو اس کے بعد وہ بدنما اور ظالمانہ طرز عمل ہر گز استعمال نہیں کیا جو عمران نیازی کے 4 سالہ دور میں انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ روا رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 4 برسوں میں کسی نہیں فیس دکھا جاتا تھا یعنی مقدمہ نہیں بلکہ چہرہ دکھا جاتا تھا کہ کس کو جیل بھیجوانا ہے اور کس کے ساتھ رعایت برتنی ہے، حکومتی وزیر ایک دن پہلے بڑے جاہ و جلال کے ساتھ اعلان کرتے کہ اپوزیشن کا فلاں لیڈر کل گرفتار ہوجائے گا اور وہ اگلے دن گرفتار ہوجاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عمران نیازی یہ کہتے تھے کہ کل ایک اور وکٹ گرنے والی ہے اور وہ وکٹ گرجاتی تھی، قومی اسمبلی کے ایوان کے پہلی دو قطاروں میں بیٹھنے والے تمام لیڈر جیلوں میں قید ہوتے تھے۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محض الزام پر گرفتاری ہوجاتی تھی اور کوئی نوٹس لینے والا نہیں تھا، رانا ثنااللہ پر 15 کلو ہیروئن ڈال دی گئی جو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ اور دور تھا۔

ان کا کہنا تھاکہ صرف سیاسی مخالفین ہی ںہیں، ان کی بیٹیوں، بہنوں، بچوں اور عزیزوں تک کو معاف نہیں کیا گیا، اندھے سیاسی انتقام کی آگ سے ملک و قوم کی ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ اسی وجہ سے پورے پاکستان خاص طور پر کاروباری برادری اور بیوروکریسی کو درپیش مشکلات کے پیش نظر یہ اصولی اتفاق رائے بن گیا کہ نیب جیسے یک طرفہ اور ظالمانہ قوانین میں ترامیم کی جائیں۔

نیب ترامیم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم اس سلسلے میں نشان دہی کرتے تھے تو ہمیں طعنہ دیا جاتا تھا کہ یہ اپوزیشن والے این آر او مانگ رہے ہیں، ہم نے اپوزیشن میں رہتےہوئے فیٹف سمیت دیگر قومی امور پر ایک قومی سوچ رویہ اپنایا اور نیب جیسے مسئلے پر قانون، انصاف اور مسائل کے حل کی سوچ اپنائی تو جواب میں ہم پر چور اور ڈاکو کے الزامات کے تیر برسائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پرانے نیب قانون کے تحت 90 دن کے لیے کسی بھی فرد کو اٹھالیا جاتا اور ضمانت ناممکن تھی، اس ظالمانہ نیب قانون میں ہم نے ترمیم کرائی، ریمانڈ کی مدت 90 دن سے کم کرکے قانون کےمطابق صرف 15 دن کردی، یہی قانون اعلیٰ عدالتی فیصلوں کی نظر میں منصفانہ عمل ٹھہرا، یہ ہماری نیک نیتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج نیب ترامیم کا سب سے پہلے جس کو فائدہ ہوا ہے، اس کا نام عمران نیازی ہے۔

’ہمارے ساتھی آج بھی نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں‘

وزیراعظم نے کہا کہ ہم اور ہمارے ساتھی آج بھی نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں، ہمارے اوپر جو الزامات لگائے گئے تھے ان میں سے ایک بھی ثابت نہیں ہوا، برطانیہ سے بھی تحقیقات کروائی گئیں، 40 سال کا ریکارڈ کھنگالا گیا اور برطانیہ کی مشہور زمانہ نیشنل کرائم ایجنسی نے ہمیں کلین چیٹ دی جس سے پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی عزت میں اضافہ ہوا۔

’ہم شدید تحفظات اور اعتراضات کے باوجود عدالت میں پیش ہوتے رہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی عدالت اور قانون کا سامنا کرنے سے انکار نہیں کیا، ہم نے شدید تحفظات اور اعتراضات کے باوجود بھی قانون کا سامنا کیا، قانون اور عدالت کے سامنے پیش ہوتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف نے اپنی بے گناہ بیٹی کے ہمراہ انتہائی بہادری کے ساتھ 100 سے زائد نیب عدالت کی پیشیاں بھگتیں حتیٰ کی ہفتے کو بھی عدالت میں پیش ہوتے رہے اور بستر مرگ پر آخری سانس لیتی میری بڑی بہن کلثوم نواز کو چھوڑا اور بیٹی مریم کا ہاتھ پکڑ کر جیل چلے گئے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بینظیر بھٹو کی الم ناک شہادت اور قومی سانحے کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی اور کارکنوں نے جس اعلیٰ قومی طرز عمل، صبر اور تحمل اور مثالی حب الوطنی کا مظاہرہ کیا، اس کا ہمیشہ اعتراف اور تحسین ہوتی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ اس واقعے کو ہمیشہ کے لیے سنہرے حروف میں یاد رکھے گی اور خاص طور پر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر نہ صرف دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا تھا بلکہ یہ واضح پیغام بھی دیا کہ ہمیں قانون اور جمہوریت کے ذریعے آگے بڑھنا ہے اور پاکستان کو ترقی دلانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں، جس میں قیادت اور کارکنوں نے جذبات کے بجائے قانون اور عدالت پر اعتماد کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب یہی ہے کہ آپ قانون اور عدالت میں اپنے حقوق کی جنگ لڑیں، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانا قطعی دہشت گردی کا عمل ہے، طاقتور اور کمزور سب قانون کے سامنے برابر ہیں، یہی درس اسلام کا ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

’عمران خان کی گرفتاری کرپشن اور کرپٹ سرگرمیوں پر ہوئی‘

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران نیازی کی گرفتاری کرپشن اور کرپٹ سرگرمیوں کے مقدمے میں ہوئی ہے، القادر ٹرسٹ کیس کے تمام شواہد اور ثبوت موجود ہیں، جس کی نیب انکوائری کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 19 کروڑ پاؤنڈ یعنی 60 ارب روپے کے معاملے کو کیسے لفافے میں بند کرکے کابینہ سے منطور کرایا گیا یہ ایک سنگین سوال ہے، کابینہ کو اندھیرے میں رکھا گیا اور بند لفافےمیں جو کچھ بھی تھا کابینہ کے کسی فرد کو نہیں دکھایا گیا لہٰذا یہ کابینہ کا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب معاملہ قومی خزانے کے 60 ارب روپے کا ہو تو کیا اسلام، قانون اور جمہوریت میں کوئی بھی یہ اجازت دے سکتا ہے کہ ملزم عدالت اور قانون کا سامنا کرنے سے انکار کردے۔

’کسی بھی گرفتاری پر ہم خوشی کا اظہار نہیں کرسکتے‘

وزیراعظم نے کہا کہ بطور ایک سیاسی کارکن کسی بھی گرفتاری پر ہم خوشی کا اظہار نہیں کر سکتے، یہ یقیناً زندگی کا ایک تلخ لمحہ ہوتا ہے، جس سے ہم کئی مرتبہ گزر چکے ہیں، ایسے مراحل میں اصل کردار قیادت کا ہوتا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو قانون کی لکیر عبور نہ کرنے دے، سرکاری و نجی املاک اور جان کی حفاظت یقینی بنانے میں اپنا حصہ ڈالے۔

’عمران اور پی ٹی آئی نےملک دشمنی کا ناقابل معافی جرم کیا‘

انہوں نے کہا کہ ’مگر صد افسوس عمران نیازی اور پی ٹی آئی نے قانونی طرز عمل اختیار کرنا تو درکنار حساس سرکاری اور نجی املاک کو شدید نقصان پہنچا کر ملک دشمنی کا ناقابل معافی جرم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دیکھتی آنکھ نے ایسے دل خراش مناظر پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، عوام کو سڑکوں اور گاڑیوں میں محصور کیا اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا حتیٰ کہ ایمبولینس سے مریضوں کو نکال کر ان کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

انہوں نے کہا کہ نجی اور سرکاری گاڑیوں کو جلایا گیا، سوات موٹر وے کو جلایا گیا، سرکاری حکام کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، حساس املاک اور عمارات پر دشمن کی طرح حملے کیے گئے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان کے خلاف چند سو مسلح جتھے کو اکسانے کی انتہائی گھٹیا اور مذموم حرکت کی گئی، شہدا اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کرکے پوری قوم کے دل کو زخمی کیا گیا اور یہ مذموم مہم اب تک جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 75 سال میں جو کا پاکستان کا ازلی دشمن کرنے کی جرات نہیں کرسکا، ان دہشت گردوں اور ملک دشمنوں نے کر دکھایا۔

تبصرے (0) بند ہیں