لکھاری پولیٹیکل اینڈ اینٹیگرٹی رِسک اینالسٹ ہیں۔
لکھاری پولیٹیکل اینڈ اینٹیگرٹی رِسک اینالسٹ ہیں۔

جب ملک میں برپا سیاسی طوفان تھمے گا تو صرف ایک نوجوان کی تصویر جس میں وہ سرجیکل ماسک سے اپنا منہ چھپائے ہوئے اور ہاتھ میں ایک مور اٹھائے ہوئے ہے، کافی دنوں تک ذہنوں پر نقش رہے گی۔ یہ مور عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ہنگاموں میں کورکمانڈر ہاؤس لاہور سے لوٹا گیا تھا۔

یہ سوچے سمجھے بغیر کی جانے والی حرکت تھی جس کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ چونکہ یہ عوام کے پیسوں سے لیا گیا ہے اس لیے اس پر عوام کا حق ہے۔ کچھ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس مور کا کیا ہوا جبکہ کچھ اس کی فلاح کے لیے فکر مند ہیں۔ اس مور کی تقدیر بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر متحرک ہونے والے سیاسی ہجوم کے لیے ایک موزوں استعارہ ہے۔

حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات کی ہمیں ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، ان واقعات نے ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا انقلاب آنے والا ہے؟

سوشل میڈیا پر مشتعل نوجوانوں کی ویڈیوز گردش کررہی تھیں جنہوں نے کورکمانڈر ہاؤس لاہور پر حملہ کیا، فانوس توڑے اور فرنیچر کو آگ لگائی، ایک ایسا ملک جہاں اشیائے خور و نوش پر مہنگائی کی شرح 40 فیصد ہے اور لوگ ایک وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، اسی ملک میں کورکمانڈر ہاؤس کے عالیشان کچن میں اسٹرابیری کا موجود ہونا کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا۔

وہ ناقابلِ تصور لمحہ تھا جب لوگوں نے جی ایچ کیو کے دروازے کو دھکیلا۔ تب ملک میں یہ خوفناک امکانات پیدا ہوگئے تھےکہ کیا ملک میں اسٹیٹس کو کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے؟

درحقیقت انقلاب کے اس مرکب میں کئی دیگر عناصر شامل ہیں جن میں کمرتوڑ مہنگائی، منقسم سیاست، پرتشدد معاشرہ جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے اور ہر چیز سے بالاترسمجھے جانے والی اشرافیہ کو للکارنے کی نئی صلاحیت شامل ہے۔ لیکن بے امنی اور آنسو گیس کے سفید دھوئیں کے باوجود بڑے پیمانے پر احتساب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کی وجہ عوام ہیں جو آج بھی صرف ردعمل میں ہی کام کرتے ہیں اور نیا نظام، نیا سماج، نیا اسٹیٹس کو بنانے کے بجائے ان کا مقصد صرف توڑ پھوڑ کرنا ہے۔

اگر اس وقت کوئی عوامی تحریک چل رہی ہے تو وہ مخالفت میں ہے کسی کی حمایت میں نہیں اور تاریخ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ کسی بھی چیز کی بنیاد نفرت پر نہیں رکھی جاسکتی۔

حتیٰ کہ اس وقت بھی کہ جب ملک نازک دور سے گزر رہا ہے تو کسی بھی تحریک کی بنیاد ہمارے حقیقی مسائل پر نہیں ہے۔ یہ رجحان ملک میں مسائل پر مبنی سیاست کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسی آمرانہ ریاست جس کی تاریخ کے زیادہ تر حصے میں فوج نے اس پر حکمرانی کی ہو، وہاں سیاست عوامی خدمت کے بجائے صرف بقا کی جنگ رہی ہے۔

ہماری سیاسی گفتگو میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا مقصد مخالفین کو کمزور کرنا اور کٹھ پتلیوں کے آقاؤں کو خوش کرنا ہے۔ یہی بگاڑ اب ہماری سیاسی تحریکوں میں بھی جھلکتا ہے۔ لوگوں میں غصہ اور ناپسندیدگی تو موجود ہے لیکن نچلی سطح پر بدلاؤ کے لیے کوششیں بھی بہت کم کی جارہی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا نہیں چاہیے لیکن ہم نے کبھی یہ ہمت ہی نہیں کی کہ ہم وہ مانگیں جو ہمیں چاہیے۔

ایک کامیاب انقلاب کے لیے ضروری بہت سے اجزا اب بھی موجود نہیں ہیں جن میں معتبر قیادت (جو صرف کسی خاص گروہ کی قیادت نہ ہو)، آزاد میڈیا جو پیغام رسانی کرسکے اور تحریک کی حمایت کرسکے اور وہ عوام جو ساختی تبدیلی کو سمجھیں اور اس کے فوائد کی بنیاد پر معاملات میں حصہ لے سکیں۔

اس آخری ضرورت کو ہمارے نوجوانوں اور شہری آبادی کو پورا کرنا چاہیے لیکن غلط معلومات، سازشی نظریات اور تعلیمی شعبے میں خرابیوں نے ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو محدود کردیا ہے۔

یقیناً اشتعال کے بغیر بھی حال ہی میں عوامی تحاریک چلائی گئی ہیں۔ جیسے پی ٹی ایم یا گوادر کی حق دو تحریک جس نے ترقی پسند سیاست اور عوامی ضروریات پر مبنی ایجنڈا پیش کیا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں اسٹیٹس کو سے فائدہ اٹھانے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کب کون سی عوامی تحریک ان کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ وہ ان گروہوں کی قیادت کو جیل میں ڈال کر اور میڈیا پابندیوں کے ذریعے ان گروہوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں۔ عمران خان اور علی وزیر کی قید کی مدت کا موازنہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ کس تحریک میں حقیقتاً تبدیلی لانے کی زیادہ صلاحیت ہے۔

مغرب میں اس بات کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے والی عوامی تحریکیں صرف اس وقت چلیں گی اور کامیاب ہوں گی جب وہ ایک ایسا سیاسی متبادل پیش کریں جس کی بنیاد عوامی مسائل اور مطالبات کے مطابق ہوں۔

مثال کے طور پر، موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کام کرنے والے کارکن تیزی سے مزدور تحریکوں یا اقلیتی حقوق کی تحریکوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ کاربن کے اخراج کو صفر کرنے کے مطالبات کو ایک ترقی پسند سوچ میں شامل کیا جاسکے جو مساوات، انسانی حقوق اور سلامتی کو فوقیت دے۔

پاکستانی عوام کو جن مسائل کے لیے ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہیے وہ لاتعداد ہیں، ان میں خوراک کی فراہمی، تحفظ، کام کے وقار، آزادی اظہارِ رائے، اقلیتوں کے حقوق، فلاح و بہبود، صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عناصر شامل ہیں۔

جب تک ہم ایک ایسا سیاسی نظام تشکیل نہیں دے دیتے جو حکمرانوں کے خلاف جانے کے بجائے عوام کے لیے مددگار ثابت ہو تب تک ہمارے مستقبل میں فسادات ہی ہوں گے، اصلاحات نہیں۔


یہ مضمون 15 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں