کوہاٹ: دو قبائل میں پرتشدد تصادم کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق

ہنگامہ آرائی کو روکنے اور قبائلیوں کو پہاڑوں سے نیچے اتارنے کے لیے فوج کو بلایا گیا — فائل فوٹو:  اے ایف پی
ہنگامہ آرائی کو روکنے اور قبائلیوں کو پہاڑوں سے نیچے اتارنے کے لیے فوج کو بلایا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل میں دو قبائل کے درمیان پرتشدد تصادم کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت 14 افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہوگئے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں سے گیارہ کا تعلق سنی خیل قبیلے سے تھا جبکہ تین کا تعلق اخوروال قبیلے سے ہے، تمام 12 زخمیوں کا تعلق سنی خیل قبیلے سے ہے۔

لڑائی شام 5 بجے شروع ہوئی جب پہاڑوں میں موجود حریف قبائلیوں نے بھاری ہتھیاروں سے دوسری طرف حملہ کیا، ہنگامہ آرائی کو روکنے اور قبائلیوں کو پہاڑوں سے نیچے اتارنے کے لیے فوج کو بلایا گیا۔

دونوں قبیلے اکوڑوالوں کے زیر قبضہ کوئلے کے پہاڑ کے چار میل کے رقبے پر لڑتے رہے ہیں۔

حکام نے ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا ہے، درہ آدم خیل انتظامیہ کے ایک اہلکار اعظم خان نے ڈان کو بتایا کہ ایف آئی آر درج نہیں کی گئی کیونکہ قبائل قانون کو تسلیم نہیں کرتے اور تنازعات کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

سنی خیل اور اخوروال قبائل 2019 سے کوئلے کی کانوں پر تجاوزات کے حوالے سے خونی تصادم میں ملوث رہے ہیں اور موجودہ تنازع ان کے درمیان پرانی دشمنی کا تسلسل ہے۔

ضلعی عہدیدار اعظم خان نے وضاحت کی کہ اخوروال قبائلی اپنے آباؤ اجداد کی جانب سے کی گئی حد بندی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے اور نئے جبری قبضوں کو قانونی قرار دیتے ہوئے مقبوضہ زمین خالی کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔

اعظم خان نے ڈان کو بتایا کہ اس سے قبل فروری میں بھی فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا تھا جس کے بعد معاملہ ان بزرگوں کے حوالے کردیا گیا تھا جنہوں نے دشمنی ختم کرنے کے لیے بفر زون بنایا تھا لیکن 12 مئی کو اس وقت لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی جب اخوروال قبیلے نے بفر زون کی خلاف ورزی کی۔

دونوں طرف سے امن کی کوششیں کرنے والے کچھ قبائلیوں نے انتظامیہ کی کمزوری اور خونی جھگڑے کے حل میں ناکامی کو اس بڑی خونی کارروائی کا ذمہ دار قرار دیا۔

تحصیلدار مسلم آفریدی نے ڈان کو بتایا کہ فوج نے معاملے کو حل کرنے کے لیے دونوں اطراف کے بزرگوں کو بلایا ہے جبکہ کوہاٹ پولیس اور درہ آدم خیل کے اسسٹنٹ کمشنر کی ثالثی میں بات چیت بند دروازوں کے پیچھے ہو رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں