اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


لندن سے اسلام آباد پہنچے تو ہوٹل میں ناشتہ کرکے سب دوستوں نے فیصلہ کیا کہ شام کو ایک مشہور جگہ بار بی کیو کھانے چلیں گے۔ وہاں موسیقی کا بھی انتظام تھا۔ فرش پر بچھی چاندی کے نیچے تشریف کو سہارا دینے کے واسطے موٹے گدے موجود تھے اور کمر ٹکانے کو گاؤ تکیے رکھے تھے۔ طبلہ نواز کے ساتھ رباب لیے ایک صاحب اپنے فن کا جادو جگا رہے تھے۔ اسپیکر کی آواز کافی زیادہ تھی اس لیے آپس میں ذرا اونچی آواز سے بات کرنی پڑ رہی تھی۔

کھانا ختم ہوچکا تھا اور رباب پر مشہور گیت بی بی شیرینی کا اختتامی انترا چل رہا تھا۔ ادھر طبلے والے نے آخری ’دھا‘ پر گیت کی دھن ختم کی اور ادھر ہمارے ایک پیارے دوست نے اچانک چھا جانے والے مکمل سکوت میں 200 ڈیسیبل کی فریکوئنسی میں دھاڑ کر اختتامی ڈکار لی۔ چونکہ ساز رک چکے تھے اس لیے گلے کے راستے معدے کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلی چیخ وہاں موجود تمام لوگوں کے کانوں پر پگھلے ہوئے سیسے کی مانند گری اور سب ناگوار حیرت سے ہماری طرف دیکھنے لگے۔

دل کیا کہ کسی طرح فرش کھود کر سڑک تک نکلنے کی کوئی سبیل ہوجائے لیکن جو ڈکار اور ذلالت مقدر میں لکھی ہو اس کا سبسکرائبر آپ کو بننا ہی پڑتا ہے بھلے آپ لائیک کا بٹن دبائیں یا نہ دبائیں۔

بسا اوقات خاموشی بڑے بڑے راز کھول جاتی ہے۔ اب عوامی بیت الخلا کو ہی لے لیں۔ جب تقاضا نہ ہو تو کسی ٹوٹے ہوئے نل کا اتنا شور میسر ہوگا کہ ضابطے کی کارروائی بغیر تعطل کے جاری و ساری رہنے کی سہولت ہوگی اور اگر بادل ناخواستہ کسی روز اس دشتِ ’رنگ و بو‘ میں جانا پڑ جائے تو چرند پرند کے ساتھ جن و انس بھی ایسی چپ سادھ لیتے ہیں کہ وہاں پھر ’ہواؤں‘ کے شور کے سوا اور کوئی آواز نہیں گونجتی۔

آپ سوچیں گے کہ گھر سے باہر تو پھر میدان جنگ ہی ٹھیک رہے گا تقاضائے قدرت کے سد باب کے لیے، لیکن نہیں۔ ٹرین اور ہوائی جہاز کے بیت الخلا میں ایسا مسئلہ نہیں ہوتا۔ شور ہی اتنا ہوتا ہے کہ اندر ہوتی آہ و زاریاں اور نالہ بلبل باہر نہیں آتے۔

جہاز میں شور ہی اتنا ہوتا ہے کہ بیت الخلا کے اندر ہوتی آہ و زاریاں باہر نہیں آتیں
جہاز میں شور ہی اتنا ہوتا ہے کہ بیت الخلا کے اندر ہوتی آہ و زاریاں باہر نہیں آتیں

جہاز کے پیٹ (کیبن) میں ہوا کا دباؤ کم ہونے پر اور مسافر کے پیٹ میں ہوا کا دباؤ زیادہ ہونے پر ہنگامی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ پہلے مسئلے کا سدباب تو آکسیجن ماسک کی صورت میں ممکن ہے مگر دوسرے مسئلے کے لیے مسافر کو چاہیے کہ وہ اپنا یہ ’باب‘ بند رکھے اور قریبی اخراج خانے سے رابطہ استوار کرے۔ وہاں اسے اپنا مچایا ہوا شور و غل بھی ہیچ لگے گا۔

ٹرین کے تو کیا ہی کہنے۔ وہاں تو بیت الخلا میں ’نشاط کار‘ کے حصول کے دوران پٹڑیوں اور ان کے درمیان پڑے پتھروں کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے بلکہ اس کام میں مصروف ہوکر انسان اپنی ’زندگی کا مقصد‘ بھی کھو سکتا ہے جس کے لیے وہ یہاں آیا تھا۔

مسافر بردار جہازوں میں انجن چلنے سے جو شور پیدا ہوتا ہے وہ کیبن کے اندر کم آواز کے ساتھ ایک گونج کی صورت میں محسوس ہوتا ہے۔ سفر کے دوران مسافروں اور عملے کے اراکین کو ذرا اونچی آواز میں بات کرنا پڑتی ہے۔ یہ آواز درجہ اول میں قدرے کم ہوتی ہے کیونکہ انجن سے اس جگہ کا فاصلہ زیادہ ہوتا ہے۔

جہازوں میں انجن چلنے کا شور بہت زیادہ ہوتا ہے
جہازوں میں انجن چلنے کا شور بہت زیادہ ہوتا ہے

درجہ اول سے آگے آجائیں تو کاک پٹ آجائے گا جس کے اندر گونج اور شور کی آواز مزید کم ہوجاتی ہے۔ کاک پٹ میں بیٹھ کر ٹیک آف کے وقت بالکل ایسا لگتا تھا جیسے میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر جانے کے لیے ناسا کے راکٹ میں بیٹھا ہوں کیونکہ اس وقت سوائے آسمان کے کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن جس طرح بلندی پر پہنچ کر کم ظرف لوگ اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اس کے برعکس جہاز کو انکساری کے ساتھ اپنی ناک ذرا نیچی کرکے عمودی سے افقی رخ پر آنا پڑتا ہے جس کے ساتھ ہی ناسا کے راکٹ والے خیال سے میں باہر نکل آتا تھا۔

جہاز کے عملے کو آرام کے وقت میں مکمل خاموشی چاہیے ہوتی ہے۔ پُرسکون اور مکمل نیند اس نوکری کے لیے لازمی ہے۔ دنیا کے مختلف ہوٹلوں میں قیام کے دوران خیال رکھا جاتا ہے کہ عملے کو اس طرف کمرے دیے جائیں جہاں شور کم سے کم ہو۔ بعض ہوٹلوں میں باقاعدہ مکمل فلور عملے کے لیے مختص کر دیے جاتے ہیں۔

جہاز کے شور سے بچنے کے لیے کچھ لوگ Ear Plugs کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں اور کچھ ہیڈ فون لگا کر موسیقی سنتے ہیں یا کچھ فلم دیکھ لیتے ہیں۔ پیرس سے وطن واپسی پر سروس کے دوران کانوں پر ہیڈ فون لگائے ایک نوجوان کو کھانا دیتے ہوئے پینے کے لیے ٹرالی پر رکھی بوتلوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا تو وہ تقریباً چیخ کر کہنے لگے ’ایک مرونڈا‘۔ مجھے لگا جیسے میں ’گجک‘ کی ریڑھی لیے کھڑا ہوں۔

سب سمجھے جہاز میں ’مرونڈا‘ نامی کوئی خاص مشروب پلایا جارہا ہے
سب سمجھے جہاز میں ’مرونڈا‘ نامی کوئی خاص مشروب پلایا جارہا ہے

چونکہ ان کے کانوں میں بجتے گانے تیز آواز میں تھے تو وہ سمجھے کہ پورے جہاز میں یہی گانا چل رہا ہے اور اتنی ہی آواز میں۔ خیر میں سمجھ گیا کہ ان کو کون سی ڈرنک چاہیے۔ لیکن مجھے ان سے پہلے بیٹھے دو لوگوں کو پیپسی کے گلاس دینے تھے۔ میں نے پیپسی گلاس میں ڈالنی شروع کی تو وہ پھر چیخے ’نہیں پائین مرونڈا‘۔ یہ سن کر ان کے ساتھ بیٹھے ان کے بھائی یا دوست کا ’پیمانہ مرونڈا‘ لبریز ہوگیا اور نوجوان کے کانوں سے ہیڈ فون اتار کر انہوں نے اس کو ’ابنِ مرونڈا‘ کا خطاب دے کر باقاعدہ تسلی کروائی۔

نوجوان نے معذرت کی جو میرے ساتھ آگے اور پیچھے کی تقریباً 3 سے 4 قطاروں میں بیٹھے لوگوں نے بھی قبول کی لیکن اس پرواز پر سب سے زیادہ بزنس ’مرونڈا‘ کی بوتل کا ہوا کیونکہ سب سمجھے جہاز پر کوئی خاص مشروب آیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں