لاہور ہائیکورٹ: ’عمران ریاض کیس میں جو نمبرز استعمال ہوئے وہ افغانستان کے ہیں‘

اپ ڈیٹ 30 مئ 2023
عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ باقی تمام لوگ 2 دن میں پکڑے جاتے ہیں لیکن عمران ریاض برآمد نہیں ہوتا — فائل فوٹو: ڈان
عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ باقی تمام لوگ 2 دن میں پکڑے جاتے ہیں لیکن عمران ریاض برآمد نہیں ہوتا — فائل فوٹو: ڈان

لاہور ہائی کورٹ میں صحافی عمران ریاض بازیابی کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پنجاب نے بتایا کہ اس معاملے میں کچھ نمبرز غیر ملکی استعمال ہوئے، جو نمبرز استعمال ہوئے وہ افغانستان کے ہیں جبکہ ہمارے پاس افغانستان کے نمبرز ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں سماعت میں عمران ریاض کے سینئر وکیل میاں علی اشفاق اور شاہزیب پیش ہوئے، آئی جی پنجاب کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی نے پوچھا کہ بتائیں اب تک عمران ریاض مسنگ پرسن کیوں ہے؟ وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے کوئی رپورٹ آئی ہے کیا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپنے آرڈر میں یہ نہیں کہا کہ عمران ریاض ایجنسیوں کے پاس ہے، ہم نے تو یہ کہا ہے کہ ایجنسیوں سے مدد لیں۔

سیکریٹری دفاع کے نمائندے نے بیان دیا کہ ابھی تک عمران ریاض کا کوئی سراغ نہیں لگا۔

اس موقع پر آئی جی پنجاب روسٹرم پر آگئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جیو فینسنگ کی ہے مگر کوئی نمبر لوکیٹ نہیں ہوسکا، عدالت کی ہدایت پر عمران ریاض کی قانونی ٹیم اور اہلخانہ سے ملاقات کی ہے۔

آئی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ ہم نے ایف آئی اے سے بھی رابطہ کیا ہے، اس معاملے میں کچھ نمبرز غیر ملکی استعمال ہوئے، جو نمبرز استعمال ہوئے وہ افغانستان کے ہیں، ہمارے پاس افغانستان کے نمبرز ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ غیر ملکی نمبر اور اس کا ٹرانسپکرٹ چیمبر میں جمع کرانا چاہتا ہوں، اگر عدالت اجازت دے تو تفصیلات جمع کرا دیتا ہوں۔

عدالت نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ ڈیڑھ بجے آپ چیمبرز میں پیش ہوں۔

عمران ریاض کے وکیل نے دلائل دیے کہ باقی تمام لوگ 2 دن میں پکڑے جاتے ہیں لیکن عمران ریاض برآمد نہیں ہوتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو لوگ یہاں ہیں ان کو پکڑنا آسان ہوتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آئی جی پنجاب نے آپ کو مطمئن کر دیا ہے کہ عمران ریاض افغانستان چلے گئے ہیں۔

عدالت نے سماعت ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ میں اینکر عمران ریاض کی بازیابی کے کیس میں آئی جی پنجاب نے چیف جسٹس امیر بھٹی کو بریفنگ دی۔

آئی جی پنجاب، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بریفنگ دینے کے بعد واپس روانہ ہوگئے۔

عمران ریاض خان گرفتاری کیس

خیال رہے کہ 26 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکرپرسن عمران ریاض کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر جاری تحریری حکم میں کہا تھا کہ تمام ایجنسیاں مل کر ان کو بازیاب کرکے 30 مئی کو عدالت میں پیش کریں۔

عدالت نے کہا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوا اور نہ ہی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی جبکہ پولیس نے مغوی کی بازیابی کے لیے 3 سے 4 دن کا مزید وقت مانگا ہے۔

اس سے قبل 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس میں پولیس کو (20 مئی) تک پیش رفت سامنے لانے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے عمران ریاض کے والد محمد ریاض کی درخواست پر سماعت کی تھی اور اس دوران ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے پولیس کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ڈی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے ایک سب انسپکٹر تعینات کردیا باقی آپ نے کہا جاؤ موج کرو۔

اس سے قبل 17 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیالکوٹ کے ڈی پی او کو اینکر عمران ریاض خان کو 48 گھنٹوں میں پیش کرنے کے حکم کے ایک روز بعد سٹی پولیس نے نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

اینکر عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ سول لائنز میں تعزیرات پاکستان کی سیکشن 365 کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ اینکرپرسن کو پولیس اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے سیالکوٹ ایئر پورٹ سے گرفتار کیا اور اس کے بعد سیالکوٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ گرفتاری کے وقت میرے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اس دوران اہل خانہ سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یاد رہے کہ 11 مئی کو گرفتاری کے بعد عمران ریاض خان کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، انہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد جلاؤ گھیراؤ اور کشیدگی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا، ان کے علاوہ بھی چند صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں