پاکستان کو خوراک کی قلت کا کوئی خطرہ نہیں، وفاقی وزیر

اپ ڈیٹ 01 جون 2023
طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ میں اقوامِ متحدہ کی رپورٹ سے پوری طرح متفق نہیں ہوں—تصویر: نیشنل اسمبلی ٹوئٹر
طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ میں اقوامِ متحدہ کی رپورٹ سے پوری طرح متفق نہیں ہوں—تصویر: نیشنل اسمبلی ٹوئٹر

وفاقی وزیر برائے تحفظ قومی خوراک و تحقیق طارق بشیر چیمہ نے قومی اسمبلی میں اقوام متحدہ کی پاکستان میں ممکنہ ’شدید غذائی عدم تحفظ‘ سے متعلق رپورٹ کو متنازع قرار دیتے ہوئے اسے’سنسنی پھیلانے اور افریقی ممالک کی طرح ملک کو بھوک کا مرکز قرار دینے کی کوشش قرار دیا’۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعیت علمائے اسلام-فضل (جے یو آئی ایف) کی رکن عالیہ کامران کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کی پاکستان میں ممکنہ خوراک کے بحران سے متعلق رپورٹ کے حوالے سے پیش کردہ ایک توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے واضح طور پر کہا کہ ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا کافی ذخیرہ دستیاب ہے اور ’اس سلسلے میں فکر کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے‘۔

طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ میں رپورٹ سے پوری طرح متفق نہیں ہوں، جب ورلڈ فوڈ پروگرام اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن ایسی رپورٹس تیار کرتے ہیں تو یہ دباؤ کے ہتھکنڈے ہوتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے سنسنی خیزی پھیلانے کی کوشش کی ہے کیونکہ ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔

خیال رہے کہ ان دونوں اداروں نے جون سے نومبر 2023 کی مدت کے لیے مشترکہ طور پر شائع شدہ رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ اگر معاشی اور سیاسی بحران مزید بگڑتا ہے تو آنے والے مہینوں میں پاکستان میں خوراک کا شدید عدم تحفظ مزید بڑھنے کا امکان ہے، جس سے 2022 کے سیلاب کے اثرات کئی گنا زیادہ ہوجائیں گے۔

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ موجودہ عالمی معاشی سست روی کے درمیان، بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے پاکستان میں جاری مالیاتی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے، حکام کو اپریل 2023 سے جون 2026 کے درمیان 77.5 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہوں گے، جو کہ 2021 میں ملک کی 3 کھرب 50 ارب ڈالر کی جی ڈی پی کے پیشِ نظر بہت بڑی رقم ہے۔

اقوام متحدہ کی دونوں ایجنسیوں نے مزید متنبہ کیا کہ بھوک کے 81 مقامات پر خوراک کی شدید عدم تحفظ کے مزید بگڑنے کا خدشہ ہے، جن میں جون سے نومبر 2023 تک کی مدت کے دوران کُل 22 ممالک شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان، وسطی افریقی جمہوریہ، ایتھوپیا، کینیا، کانگو اور شام بہت زیادہ تشویش کے ساتھ ہاٹ سپاٹ ہیں اور وارننگ میں میانمار کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

وزیر خوراک نے کہا کہ رپورٹ نے 2021 میں ملک کی جی ڈی پی کو بیس لائن بنایا تھا جو اس وقت 350 ارب ڈالر تھی اور اب آئی ایم ایف پروگرام کو حتمی شکل نہ دینے کی وجہ سے کم ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اگلے تین سال میں 76 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہوں گے، پاکستان تمام قرضے وقت پر ادا کر رہا ہے۔

طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ ملک نے تین بڑی فصلیں درآمد کی ہیں، دالیں، خوردنی تیل کے بیج اور چائے، گزشتہ سال تیل کے بیجوں کا درآمدی بل 4.5 ارب ڈالر تھا اور اس سال پنجاب اور سندھ میں بوائی کے رقبے میں اضافے کی وجہ سے درآمدی بل میں کافی حد تک کمی کر سکیں گے۔

رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ اقوام متحدہ کی دو ایجنسیاں پاکستان کو افریقی ممالک کی طرح قحط کا ’ہاٹ سپاٹ‘ قرار دینا چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس سال گندم کی بڑی فصل ہوئی اور گزشتہ سال کے بقایا ذخیرے کے ساتھ ساتھ گندم کی 2 کروڑ 85 لاکھ ٹن پیداوار ریکارڈ کی گئی۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سال اجناس درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور رواں سال چاول اور مکئی کی بمپر فصلیں ہوں گی۔

تاہم رکن اسمبلی عالیہ کامران نے وزیر کی توجہ غذائی مہنگائی کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رپورٹ دی تھی کہ ملک میں مصنوعات دستیاب ہیں، لیکن قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ عوام کے لیے قابل خرید نہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت دالوں کی درآمد پر تقریباً ایک ارب روپے خرچ کر رہی ہے اور حکومت کو درآمدی بل کو کم کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

وزیر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن کہا کہ حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے مختلف پروگراموں کے ذریعے غریبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ملک دالوں میں بھی خود کفیل ہو جائے گا کیونکہ انہوں نے اس سلسلے میں تحقیقی کام شروع کر دیا ہے۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف نے ایوان کا اجلاس 9 جون کی شام 4 بجے تک ملتوی کر دیا جب حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں