ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ کی ساخت ہمارے احساس، رویے اور جسم کے مواصلاتی نظام پر اہم کردار ادا کرتی ہے۔

امریکی اخبار ’نیویارک پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کے میلبورن میں یونیورسٹی آف موناش کے سائنسدانوں نے تحقیق کی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی دماغی ساخت آپ کے سوچنے، محسوس کرنے اور برتاؤ کرنے کے طریقے پر بہت زیادہ اثر انداز ہو سکتی ہے۔

یہ تحقیق ’نیچر‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی، تحقیق کے مطابق 255 افراد کے دماغ کا ایم آر آئی اسکین کیا گیا، اس دوران انہیں مختصر وقت کے لیے تصاویر دکھائی گئیں اور بعد میں ان سے تصاویر سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔

فوٹو: واشنگٹن پوسٹ
فوٹو: واشنگٹن پوسٹ

بعد ازاں محققین نے دنیا بھر میں کیے جانے والے ایک ہزار سے تجربات سے حاصل ہونے والے 10 ہزار انسانی دماغ کے سی ٹی اسکین کا جائزہ لیا جس میں موازنہ کیا گیا کہ دماغ کی ساخت کا ان کے مختلف کرداروں پر کیا اثر پڑتا ہے۔

آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو اور مطالعے کے مصنف جیمز پینگ نے کہا کہ ’دماغ کا سائز اور ساخت دماغی لہر کے تعین کرنے میں مدد دیتی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ دماغی ساخت انسانی رویوں اور سوچ کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہ دماغی لہر کو سوچنے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے، جس کا تعلق ان انسان کی سرگرمیوں سے ہوتا ہے جو وہ مختلف اوقات میں سرانجام دیتے ہیں۔

واشنگٹن یونیورسٹی میں نیورو سائنس کے پروفیسر ڈیوڈ وان ایسن نے کہا کہ ’دماغ کی ساخت کی تھیوری پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تحقیق کی جارہی ہے‘۔

فوٹو: واشنگٹن پوسٹ
فوٹو: واشنگٹن پوسٹ

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن زیادہ تر سائنس دان اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دماغ کے تقریباً ایک کھرب اعصابی خلیات میں ایکسون ہوتا ہے جو دوسرے خلیات تک معلومات لے جانے کا کام کرتا ہے، اس طرح دماغ کے خلیے یا نیورونز نہ صرف آپس میں نئے کنکشن یا ربط بنا لیتے ہیں بلکہ نیورونز نئے انداز سے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس نئی تحقیق میں نیورون کے درمیان رابطے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ دماغ کی ساخت دماغ کے کام میں زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے’۔

پروفیسر ڈیوڈ وان کہتے ہیں کہ ’دماغی ساخت انسانی احساسات، رویے اور کام میں اثر انداز ہوتی ہے لیکن اس عمل میں نیورون کے کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔‘

مطالعے کے مصنف جیمز پینگ کے مطابق یہ تھیوری سائنسدانوں کو دماغی ساخت کے ماڈلز پر غور کرکے ڈیمنشیا، شیزوفرینیا یا ڈپریشن جیسی بیماریوں اور اس کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں