معروف وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر کے مبینہ اغوا ہونے پر شوبز انڈسٹری کی نامور شخصیات کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا اور وہ جبران ناصر کی بحفاظت واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

نامور وکیل کے مبینہ اغوا ہونے پر اداکار عثمان خالد بٹ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’امید ہے کہ آپ بحفاظت جلد گھر واپس لوٹ آئیں گے‘، اداکار نے منشا پاشا کو بھی مشکل وقت میں مضبوط رہنے کے لیے ٹوئٹ کی۔

ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے بھی مائیکرو بلاگنگ سائٹ پر لکھا کہ ’انسانی حقوق کے علمبردار (جبران ناصر) کے اغوا پر انتہائی افسوس ہوا، وہ لوگوں کے حق کے لیے آواز بلند کرتے تھے‘۔

انہوں نے وکیل کی رہائی کے لیے منشا پاشا کے ساتھ مل کر مہم چلانے کے عزم کا اظہار کیا۔

کامیڈین علی گل پیر نے ہیش ٹیگ ’جبران ناصر کو رہا کرو‘ لکھتے ہوئے نامور سوشولوجسٹ مارٹن نیمولر کا اقتباس ٹوئٹ کیا کہ ’پہلے وہ ان کے لیے آئے، ہم نے کچھ نہیں کہا، پھر وہ ہمارے لیے آئے۔‘

اس کے علاوہ انہوں نے مزید لکھا کہ جبران ناصر ہمیشہ ضرورت مندوں کے ساتھ کھڑے رہے، سیلاب زدگان کی مدد سے لے کر ضرورت مندوں کو قانونی مدد فراہم کرنے تک وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی آواز اٹھائیں، جبران ناصر کو رہا کرو۔

اداکار اسامہ طاہر نے منشا پاشا کا بیان اپنی انسٹا سٹوری پر شیئر کیا کہ ’پلیز جبران ناصر کی جلد اور محفوظ واپسی کے لیے دعا کریں‘۔

معروف فلم ساز شرمین عبید چنائے نے انسٹاگرام اسٹوری پر لکھا کہ ’کوئی نہیں بچا، انہوں نے سب کو خاموش کر دیا ہے۔‘

اس کے علاوہ عدنان ملک، ہانیہ عامر اور نمرہ بُچا نے بھی منشا پاشا کی ویڈیو شئیر کی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اداکارہ منشا پاشا نے ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’سادہ کپڑوں میں ملبوس اور ہاتھوں میں پستول اٹھائے تقریباً 15 افراد نے ہماری گاڑی کو گھیرا اور جبران کو زبردستی لے گئے، ساتھ ہی انہوں نے جبران کے لیے آواز اٹھانے اور خیریت کے لیے دعا کی اپیل کی۔

منشا پاشا نے مزید کہا کہ وہ ہمیں کار سے باہر نکالنے کے لیے صرف چیختے رہے اور کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔

جبران ناصر سماجی و ملکی مسائل پر بے دھڑک بات کرنے اور پاکستانیوں کے آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں میں ایک توانا آواز سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔

حال ہی میں وہ پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر فسادات میں حصہ لینے والے افراد کےخلاف قانونی کارروائی کے طریقے پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں۔

انہیں 2013 میں فارن پالیسی میگزین نے فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف متاثر کن کام کرنے والے تین پاکستانیوں میں شامل کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں