پاکستان کے سینئر اداکار محمد احمد کہتے ہیں کہ ٹی وی قارئین کو ڈراموں میں تشدد برداشت کرتی ہوئی اور مظلوم لڑکیاں دیکھنے کا نشہ ہوگیا ہے اور جب کسی سیریل میں خود مختار اور مضبوط عورت دکھائی جائے تو چینل تبدیل ہوجاتے ہیں۔

محمد احمد اداکار کے ساتھ ساتھ نامور لکھاری بھی ہیں، اکثر ڈراموں میں کہانی کے کسی موڑ پر ان کے کردار کا انتقال ہوجاتا ہے یا کبھی مجبور والد کا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں اور انہیں اسی حوالے سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے مشہور ڈراموں میں سنو چندا، بیٹیاں، ہم تم، رسوائی شامل ہیں۔

حال ہی میں دنیا نیوز کے مزاحیہ پروگرام ’مذاق رات‘ میں انہوں نے شرکت کی جس کی میزبان نامور ہدایت کار اور لکھاری واسع چوہدری کر رہے تھے۔

پروگرام کے دوران واسع چوہدری نے محمد احمد سے سوال کیا کہ کیا رائٹرز کی اسکرپٹ میں کمی آگئی ہے؟ کیا لکھنے سے قبل اسکرپٹ پر گہری نظر نہیں ڈالی جاتی؟ کیا اچھی اور معیاری اسکرپٹ کی کمی ہوگئی ہے؟

جس پر اداکار محمد احمد نے جواب دیا کہ ایک رائٹر وہی لکھتا ہے جو کہا جاتا ہے، ایک رائٹر کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں اگر آپ رائٹر ہیں اور آپ کی اپنی سوچ ہے تو آپ کو لکھنا نہیں چاہیے، کیونکہ آپ کی اپنی سوچ سے لکھا اسکرپٹ منظور نہیں ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے اسکرپٹ پر عقل و دانش کی بات کی ہے تو کہا جائے گا کہ ’یہ کسی کو سمجھ نہیں آئے گا‘، محمد احمد نے کہا کہ میرے خیال سے ہمیں منشی ہونا چاہیے اور ہر بات پر ہاں کہنے کی عادت ہونی چاہیے تب ہی ہم اچھے لکھاری بن سکتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں محمد احمد نے کہا کہ بطور رائٹر میں نے جب بھی آواز بلند کی تو مجھے ریٹنگ کی فہرست دکھائی گئی جس میں واضح تھا کہ سیریل میں جب لڑکی پر تشدد ہورہا تھا تو اس کی ریٹنگ 14 تھی، لیکن جب لڑکی نے اپنی ساس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ ’اب میں مار نہیں کھاؤں گی‘ تو ریٹنگ کم ہوکر 4 پر آگئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح نشے کی عادت پڑجائے تو اس سے چھٹکارا مشکل ہوتا ہے اسی طرح قارئین کو بھی یہی عادت ہوگئی ہے۔

اداکار و لکھاری نے کہا کہ اسکرین پر لڑکی پر تشدد ہوتا رہے، مظلوم لڑکی دکھائی جائے یا پھر زیادہ سے زیادہ رومانوی کہانی (love triangle) دکھائی جائے تو قارئین دیکھتے رہیں گے، لیکن جب کسی سیریل پر لڑکی کو خودمختار اور مضبوط دکھایا جائے لوگ چینل بدل دیتے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے میزبان واسع چوہدری نے کہا کہ قارئین شاید ہمارے معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں کہ جب تک ہم پر ظلم ہوتا رہے ہم صحیح رہتے ہیں اور جب ہمیں 2 منٹ کے لیے پاور مل جائے تو ہماری دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔

واسع چوہدری کی بات پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اداکار نے کہا کہ ’جی ایسا ہی ہے‘، ہمیں اپنے آپ کو پیٹنے اور رونے کی عادت ہے، قوم کے اندر بہت بڑا المیہ ہے، قوم کو ہنسانا بہت مشکل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پروگرام میں بیٹھے کامیڈین کی ہمت ہے جو ہمیں ہنساتے ہیں جو بہت بڑا کام ہے، قوم کو رُلانا بہت آسان ہے اور ہنسانا بہت مشکل ہے۔

اداکار محمد احمد نے اس سے قبل بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی ڈراما انڈسٹری، جن تین افراد کے سینگوں پر کھڑی ہے، انہوں نے اپنی سوچ صرف ’ریپ، طلاق اور ناجائز تعلقات‘ جیسے موضوع پر روک رکھی ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ٹی وی ڈراموں میں خواتین پر ظلم اور زیادتی کے حوالے شائستہ لودھی بھی اپنی رائے کا اظہار کرچکی ہیں۔

میزبان و اداکارہ شائستہ لودھی نے کہا تھا کہ مقبولیت اور ریٹنگ کے لیے ٹی وی چینلز مالکان ڈراموں میں خواتین پر تشدد کرنے اور انہیں مجبور و مظلوم دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں