پی ٹی آئی چھوڑنے والے اہم رہنماؤں نے جہانگیر ترین سے ہاتھ ملا لیا

جہانگیر ترین کیمپ کے رکن عون چوہدری نے کہا کہ نئی پارٹی کا نام استحکام پاکستان پارٹی ہوگا—فوٹو: ٹوئٹر/شہباز گل
جہانگیر ترین کیمپ کے رکن عون چوہدری نے کہا کہ نئی پارٹی کا نام استحکام پاکستان پارٹی ہوگا—فوٹو: ٹوئٹر/شہباز گل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چھوڑنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے مشن پر سرگرم سینیئر سیاستدان جہانگیر خان ترین سے گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ٹیم کے اہم کھلاڑیوں نے ہاتھ ملا لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں ایک اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری، عامر کیانی، علی زیدی، عمران اسمعٰیل، محمود مولوی، فردوس عاشق اعوان، اجمل وزیر، نوریز شکور اور فیاض الحسن چوہان نے چہروں پر مسکراہٹ کے ساتھ اپنے نئے باس کو گلے لگایا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی سیاستدان وہ تھے جنہوں نے 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی ’عارضی وقفہ‘ لینے کا اعلان کیا تھا، تاہم محض چند ہفتوں بعد ہی وہ نئے سیاسی کیمپ میں باضابطہ طور پر داخل ہوگئے ہیں۔

پنجاب کے سابق وزیر تعلیم مراد راس (جنہوں نے چند روز قبل ایک اور سابق وزیر ہاشم ڈوگر کے ساتھ مل کر تقریباً 3 درجن سابق اراکین اسمبلی کی حمایت کے دعوے کے ساتھ ’ڈیموکریٹس‘ گروپ تشکیل دیا تھا) نے بھی نئی پارٹی میں اچھی پوزیشن ملنے کے وعدے پر جہانگیر ترین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا جسے جہانگیر ترین جلد ہی لانچ کرنے والے ہیں۔

جہانگیر ترین کیمپ کے رکن عون چوہدری نے کہا کہ نئی پارٹی کا نام ’استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی)‘ ہوگا، ایک ذرائع نے بتایا کہ گروپ کے اراکین میں نام پر اتفاق رائے ہے لیکن آخری لمحات میں اس میں تبدیلی کا امکان بعید از قیاس نہیں ہے۔

پراپرٹی ٹائیکون علیم خان نے مبینہ طور پر آئی پی پی میں صدر کے عہدے پر اپنی نگاہیں جما رکھی ہیں جبکہ جہانگیر ترین اُس وقت تک اِس نئی پارٹی کے ’قائد‘ سمجھے جا سکتے ہیں جب تک کہ انہیں تاحیات نااہلی کے حوالے سے عدالت سے ریلیف نہیں مل جاتا۔

اس نئی پارٹی کو ’کنگز پارٹی‘ کہا جا رہا ہے اور توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں یہ پنجاب کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر سابق پی ٹی آئی رہنما اور الیکٹیبلز پہلے ہی ترین گروپ میں شامل ہو چکے ہیں۔

گزشتہ روز جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے 3 سابق رہنماؤں (سجاد بخاری، تسنیم گردیزی اور جہانزیب وارن) نے ترین گروپ میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

وزیراعلیٰ کے سابق مشیر علی گیلانی، سابق قانون ساز ممتاز مہروی، عظمت چشتی اور مہر ارشاد کاٹھیا اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما ریٹائرڈ میجر خرم روکھڑی اور عثمان اشرف نے بھی جہانگیر ترین سے ملاقات کی اور ان کے گروپ میں شامل ہوگئے۔

ترین گروپ اور پیپلزپارٹی کے درمیان جنوبی علاقوں سے زیادہ سے زیادہ الیکٹیبلز اور پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو اپنے ساتھ شامل کرنی کے لیے سخت مقابلہ جاری ہے تاکہ اگلے عام انتخابات میں اس علاقے سے فتح کے امکانات روشن کیے جاسکیں۔

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری ایک ہفتے سے لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں تاکہ پی ٹی آئی کی ’ٹوٹ پھوٹ‘ کے دوران پنجاب میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوسکے۔

اس حوالے سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے بتایا کہ آصف زرداری کا خیال ہے کہ اگر ان کے بیٹے بلاول بھٹو کو اگلا وزیر اعظم بننے کا کوئی موقع ملا تو پیپلزپارٹی کو پنجاب (خاص طور پر صوبے کے جنوبی علاقے جہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ہے) میں اچھی خاصی نشستیں حاصل کرنا ہوں گی۔

چوہدری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) میں تاحال کوئی اہم سیاسی شخصیت شامل نہیں ہوئی ۔

9 مئی کے واقعات کے بعد پارٹی چھوڑنے والے پی ٹی آئی کے 100 سے زائد رہنما اور اراکین اسمبلی اب سیاست کے لیے نئے پلیٹ فارم کی تلاش میں ہیں، پی ٹی آئی سے انخلا کا سلسلہ جاری ہے، عمران خان کے وفادار سمجھے جانے والے متعدد سیاسی رہنما ہر گزرتے دن کے ساتھ خود کو سیاست میں غیرمتعلق ہونے سے بچانے کے لیے انہیں الوداع کہہ رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے مراد راس نے ایک بڑا دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اور ہاشم ڈوگر نے 35 سابق اراکین اسمبلی پر مشتمل ’ڈیموکریٹس‘ گروپ تشکیل دیا ہے، دونوں رہنماؤں نے ان اراکین اسمبلی کی تفصیلات فراہم نہیں کیں جن کے بارے میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا، تاہم گزشتہ روز انہوں نے جہانگیر ترین سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ ہاتھ ملالیا۔

مراد راس نے اس حوالے سے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا، تاہم یہ کہا جارہا ہے کہ انہیں یا تو جہانگیر ترین کی نئی پارٹی میں اچھی پوزیشن دیے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے یا پھر انہیں جہانگیر ترین کو جوائن کرنے کی ’ہدایت‘ دی گئی ہے۔

کہا جارہا ہے کہ گزشتہ روز علیم خان کی رہائش گاہ پر ہونے والے استقبالیے میں پی ٹی آئی کے 100 سے زائد سابق اراکین اسمبلی اور رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں