آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر ہوئی تو اس پر حکمت عملی بنائیں گے، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 11 جون 2023
شہباز شریف نے کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ اسی ماہ ہوگا — فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف نے کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ اسی ماہ ہوگا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود اگر معاہدے میں تاخیر ہوئی تو اس پر حکمت عملی بنائیں گے۔

وزیر اعظم نے سبزہ زار اسپورٹس کمپلیکس لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اس شاندار اسپورٹس کمپلیکس کا افتتاح کیا، 2017 میں لاہور کے 14 حلقوں میں نوجوانوں کو کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کے لیے اسپورٹس کمپلیکس کا منصوبہ شروع کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد دھاندلی کی پیداوار فسطائی حکومت نے ان منصوبوں کو بند کردیا اور اس کے بعد ہمارے نیب کے عقوبت خانوں کے چکر لگنے شروع ہوئے اور پنجاب کے عوام کو صاف پانی کی فراہمی، کوڑا اٹھانے کے منصوبوں پر جواب طلبی ہوئی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ وہ چار سالہ دور تھا جس میں ترقیاتی عمل ٹھپ ہوئے، ہم نے نواز شریف کی قیادت میں ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کی، چین نے نواز شریف پر اعتماد کرتے ہوئے اربوں ڈالر کے منصوبے شروع کیے لیکن وہ تمام منصوبے ختم کر دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ان 14 اسپورٹس کمپلیکس میں سے ایک کا افتتاح کردیا، یہ نوجوانوں کے لیے نواز شریف کا بہترین تحفہ ہے، اس کے نصف ممبران طالب علم ہوں گے جن سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی، بچیوں اور بچوں کے لیے الگ الگ کمپلیکس ہیں جہاں یکساں سہولیات ہیں، 50 فیصد ممبر شپ پیڈ ہوگی جس سے حاصل آمدن یہاں سہولیات کی فراہمی اور مشینوں کی مرمت پر صرف ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں بڑے اعلانات کیے گئے ہیں، نوجوانوں کو وظائف، ملازمتوں سمیت زراعت کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غریبوں کے لیے اس بجٹ میں خصوصی توجہ دی گئی، اپریل 2022 میں جب ہم نے اقتدار سنبھالا تھا تو دنیا میں مہنگائی کا عروج تھا، روس۔یوکرین جنگ سے تیل مہنگا ہوا، بدترین سیلاب آیا، اپنے وسائل ان کی بحالی پر لگائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ توڑا، جب کووڈ 19 میں گیس کی قیمتیں کم ترین تھیں اس وقت کی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی، اس نے اپنی توانائیاں صرف اس پر صرف کیں کہ کیسے شریف خاندان کو جیل میں بھجوانا اور اپوزیشن کو کیسے دیوار کے ساتھ لگانا ہے، اگر وہ اس پر وقت برباد کرنے کے بجائے آدھا وقت بھی قوم کی بہتری پر لگاتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ ان مشکل ترین حالات کے باوجود مہنگائی سے نمٹنے کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے، ہمیں احساس ہے کہ اس وقت غریب مشکل میں ہے، تمام مشکلات کے باوجود ایک سے 16 گریڈ تک 35 اور 17 سے 22 تک کے افسران کی تنخواہ میں 30 فیصد اور پنشن میں 17.5 فیصداضافہ کیا ہے، نواز شریف کی قیادت میں دن رات اس بجٹ پر کام کیا، اتحادی جماعتوں نے اس میں اپنا پورا حصہ ڈالا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 9ویں جائزے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں، ہم نے تمام شرائط پوری کردی ہیں تاکہ بقیہ اقساط مل جائیں، میں نے خود آئی ایم ایف کی سربراہ سے بات کی، امید ہے اسی ماہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجائے گا، تاہم اگر اس میں تاخیر ہوئی تو اس پر حکمت عملی بنائیں گے، قوم کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھیں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 9 مئی کا سانحہ افسوسناک ہے، ماضی میں کبھی سیاسی جماعتوں نے ایسا اقدام نہیں اٹھایا، عمران نیازی کے اکسانے پریہ فساد برپا کیا، دشمن بھی 75 سالوں میں پاکستان کے ساتھ ایسا نہیں کرسکا۔

انہوں نے کہا کہ ان حملوں میں ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سزا ملے گی تاکہ کوئی دوبارہ ایسی حرکت نہ کرسکے، کسی بے گناہ کو سزا نہیں ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ہے، نواز شریف کی قیادت میں ہم سب مل کر سیاسی استحکام لائیں گے اور ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا اور عوامی خدمت کا سفر جاری رکھیں گے۔

شہباز شریف نے لاہور میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی سبزہ زار اسپورٹس کمپلیکس کا دورہ بھی کیا، وزیرِ اعظم نے دورے کے دوران اسپورٹس کمپلیکس میں دی جانے والی مختلف سہولیات کا جائزہ لیا۔

وزیرِ اعظم نے عوام کے لیے کھیلوں کی معیاری سہولیات پر اطمینان کا اظہار کیا اور بالخصوص خواتین کے لیےکھیلوں کے علیحدہ انتظامات پر انتظامیہ کی تعریف کی۔

انہیں کمشنر لاہور کی طرف سے لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے زیر نگرانی اسپورٹس کے جاری دیگر منصوبوں پر بریفنگ دی گئی، شہباز شریف نے جاری منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل کی خصوصی ہدایت کی۔

’شمسی توانائی کے شعبہ میں تعاون کے خواہشمند ہیں‘

— فوٹو: اے پی پی
— فوٹو: اے پی پی

گزشتہ دنوں اپنے دورہ ترکیہ کے دوران ترک خبر رساں ادارے ’حبر گلوبل‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کو ایک بار پھر زبردست کامیابی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت کیا ہے کہ وہ ایک زبردست مقابلہ کرنے والی شخصیت ہیں، وہ ایک عظیم سیاستدان اور رہنما ہیں، ترکیہ کی عوام نے ان پر غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام، میری حکومت اور مجھ سمیت ہم سب بہت خوش اور اس شاندار کامیابی پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں، میں اپنے بھائی رجب طیب اردوان کے ساتھ بہت قربت سے مل کر کام کرنے کا متمنی ہوں تاکہ ہم اپنے برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط اور تجارت، سرمایہ کاری اور باہمی روابط میں اضافہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی اتفاق کرچکے ہیں کہ آنے والے تین سالوں میں ہم اپنی باہمی تجارت کو 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کی کوشش کریں گے، یہ کوئی مشکل ہدف نہیں ہے، ہمیں امید ہے کہ ہم مل کر یہ ہدف حاصل کرلیں گے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ترکیہ اور پاکستان دو برادر ملک ہیں، یہ یک جان دوقالب کی مانند ہیں جن کے تعلقات کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، ترکیہ کی جنگ آزادی سے اس سے بہت پہلے سے ان تعلقات کی تاریخ ہے، ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، ترکیہ امن، سیلاب، زلزلہ سمیت ہر مشکل وقت میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے، صدر طیب اردوان، ان کی حکومت اور ترکیہ کی عوام نے ہمیشہ آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح پاکستانی عوام اور ہر حکومت ترکیہ کے ساتھ تعلقات کے حوالہ سے ایک پیج پر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ سفر ہے جسے ہم نے اختیار کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم محنت اور مقصد سے وابستگی کے ساتھ مل کر اپنی خواہشات کہ پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ اپنا باہمی تجارتی حجم بڑھائیں گے، ہم شمسی توانائی کے شعبے میں ترک سرمایہ کاروں کے تعاون کے خواہشمند ہیں کیونکہ ترکیہ، شمسی توانائی کا زبردست تجربہ رکھتا ہے، ہم ترک سرمایہ کاروں کو پن بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے بھی دعوت دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا بھر میں پن بجلی کے منصوبے مکمل کیے ہیں، دیامر بھاشا جیسے منصوبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے بہت مواقع ہیں، ترک سرمایہ کاروں سے اس پر بات ہوئی اور انہوں نے اس میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ترک سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ میں اساتذہ، طلبہ اور تاریخ دانوں کے وفود کے تبادلے کے وسیع مواقع موجود ہیں، انہوں نے دعوت دی کہ باہمی تعلقات کے اس زبردست سفر سے آگاہی کے لیے سیمینارز کا انعقاد کریں، اس حوالے سے ہماری خواہشات اور مقاصد کی تکمیل صدر رجب طیب اردوان کے موجودہ دور میں ہوگی، وہ ایک دوراندیش اور صاحب بصیرت رہنما ہیں جن کا بڑا احترام ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارا تعلق برادرانہ ہے اور ہر اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں، صدر اردوان کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے پاکستانی آموں کا تحفہ لایا، پاکستان کے سندھڑی آم بہت مشہور ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان، ایران اورترکیہ کے مابین ریل روڈ نیٹ ورک کا منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس نیٹ ورک میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، اس سے سفری لاگت میں کمی آئے گی، ہماری پیداوار اور مصنوعات کو ان منڈیوں میں مقابلے کا موقع ملے گا اور وہ اس سے مستفید ہوسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میرا مقصد ہوگا کہ اس ریل نیٹ ورک کو جدید ترین اور بہترین کارکردگی کا حامل بنایا جائے، پاکستان کی افرادی قوت زیادہ مہارت اور سستی ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ترکیہ، پاکستان میں سرمایہ کاری کرے اور پاکستانی سرمایہ کار ترکیہ میں سرمایہ کاری کریں، ترکیہ کی ٹیکنالوجی اور پاکستان کی افرادی قوت میسر ہو تو یہ ایک زبردست مجموعہ ہوگا جس سے ہم زیادہ قیمتی اشیا مقابلتا انتہائی بہتر قیمت پر تیار کرسکیں گے، اس سے ہمارے باہمی تعاون اور باہمی منصوبوں میں مواقع کا ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

شہباز شریف نے کہا کہ آگے بڑھنے کا راستہ یہی ہے، پاکستان اگرچہ مشکل چیلنجز سے گزر رہا ہے، بین الاقوامی منڈیوں میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمانوں کو پہنچ گئیں، درآمدی اشیا مہنگی ہوگئی ہیں، ہمیں گزشتہ برس بدترین سیلابوں کا سامنا رہا جو ہماری تاریخ کے سب سے زیادہ تباہ کن تھے، 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، ہماری فصلیں تباہ ہوئیں، ہمارا انفرااسٹرکچر تباہ اور 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہماری قوم ہمہ گیر صلاحیتوں کی حامل، مضبوط اور بہادر ہے، اس لیے ہم ان چیلنجز کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ہماری ہر طرح سے یہ کوشش ہے کہ چیلنجز سے نمٹیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سخت محنت اور باہمی تعاون سے ہم قابل فخر انداز میں لگن کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

’جس طرح شمالی آئرلینڈ، سوڈان، بلقان کے مسائل حل کیے گئے، مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے‘

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ قریبی دفاعی تعلقات کے حامل ہیں، دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان اب تک بہت سے دفاعی معاہدے ہوئے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان مضبوط تذویراتی شراکت داری قائم ہے، پاکستان ترکیہ کی بحری جہاز بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبہ کا حصہ بن چکا ہے، اس پر ترکیہ میں کام ہو رہا اور کچھ حصہ کراچی شپ یارڈ پاکستان میں پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے، یہ باہمی اشتراک کی ایک زبردست مثال ہے، اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی دونوں ملکوں کے مفاد میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پاکستان کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے، ترکیہ نے کشمیر کاز پر ہمیشہ پاکستان کی غیرمشروط حمایت کی ہے جس کے لیے ہم ان کے مشکور ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ کشمیری بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، بھارتی مظالم سے پوری دنیا آگاہ ہے اور کشمیری عوام کی قربانیوں سے بھی پوری دنیا آگاہ ہے اس کے باوجود بھارت ضد پر اڑا ہوا ہے، بھارت کا کشمیریوں کا زیر تسلط رکھنے کا طرز عمل بہت بڑا منفی پہلو ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ جس طرح شمالی آئرلینڈ کا مسئلہ حل کیا گیا تھا، جس طرح سوڈان، بلقان کے مسائل حل کیے گئے اسی طرح وقت آگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ کشمیریوں کی خواہشات مزید تاخیر بغیر پوری ہوں، بصورت دیگر ہمارے خطے میں امن قائم نہیں ہوسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے لوگوں کو تعلیم، خوراک، روزگار مہیا کرنے اور جہالت اور غربت کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے محدود وسائل کو ان شعبوں میں استعمال میں لانے کی ضرورت ہے، ہمیں مزید اسلحہ اور جنگی جہاز خریدنے سے فائدہ نہیں ہوگا، تنازعات کے حل کا واحد راستہ پرامن مذاکرات ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے پاکستان میں اتحادی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ تباہ کن سیلابوں سے نمٹنے کے لیے بھرپور کاوشیں کی ہیں، عالمی برادری کو متحد کیا اور جنیوا میں کامیاب ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کیا، جہاں دوست ممالک اور عالمی برادری نے امداد کے وعدے کیے، اتحادی حکومت نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے سنگین خطرے سے بچایا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی پاسداری نہیں کی اس کے نتیجہ میں پاکستان کو سنگین معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے فیٹف کی گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالا جس کا کریڈٹ مشترکہ طور پر حکومت اور فوجی قیادت کو جاتا ہے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

’امید ہے جلد یا بدیر آئی ایم ایف بورڈ نویں جائزہ کی منظوری دیدے گا‘

وزیراعظم نے کہا کہ ان مشکلات کے باوجود ہم اپنی معیشت کی بہتری پر توجہ دے سکے ہیں، ہمارے ٹھوس اقدامات کی وجہ سے اس سال گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی، اس سے گندم کی درآمد میں صرف ہونے والے اربوں ڈالر کی بچت ہوگی، ہمیں امید ہے کہ اس جیسے بہت سے اچھے اقدامات کی وجہ سے ہماری کپاس کی فصل بھی بہت اچھی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹیکسٹائل کی صنعت کا مرکز ہے، گزشتہ سالوں میں ہمیں کپاس درآمد کرنا پڑتی تھی، مجھے امید ہے کہ اس سال ہم اپنی طلب کا ایک بڑا حصہ اپنی مقامی پیداوار سے پورا کر سکیں گے، ہمیں ان اقدامات پر فخر ہے لیکن ابھی ہم نے طویل سفر طے کرنا ہے، ہم نے ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزہ کی تکمیل کرنا ہے، ہماری طرف سے تمام شرائط اور مطالبات پورے کر دیے گئے ہیں، امید ہے کہ جلد یا بدیر آئی ایم ایف بورڈ نویں جائزے کی منظوری دے دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے ہمارا کثیرالجہتی اور دوطرفہ اداروں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست کو مکمل ہو رہی ہے لیکن بغیر کسی ٹھوس وجوہات کے پی ٹی آئی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی، اگر انہیں قومی اسمبلی کی تحلیل میں اتنی دلچسپی تھی تو انہوں نے اپنی مدت کے دوران ایسا کیوں نہیں کیا۔

’کچھ عناصر نے پنجاب پر اقتدار پر تسلط قائم کرنے کی بے بنیاد الزام تراشی کی‘

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران کان کے پاس موقع موجود تھا، پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تاکہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے پرامن تصفیہ پر پہنچ سکیں کیونکہ پی ٹی آئی نے دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوئے ہیں، اب انہوں نے دو اسمبلیاں تحلیل کیں، پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور ماضی میں کچھ عناصر کی جانب سے یہ بے بنیاد الزام تراشی ہوتی رہی کہ پنجاب نے اقتدار پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ پنجاب کا دیگر تینوں صوبوں کے ساتھ برابری کا تعلق ہے، ہم ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں، یہ ہماری اقدار ہیں ،اگر ہم نے ایک خاندان کی طرح آگے بڑھنا ہے تو ہم سب نے مشترکہ طور پر کردار ادا کرنا ہے اور نفع نقصان میں حصہ دار بننا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے میں انتخابات کرانے ہیں تو آنے والے وقتوں میں ایک نظیر قائم ہوجاتی کہ سب سے پہلے بڑے صوبے میں اور دیگر صوبوں میں بعد میں انتخابات ہوتے تو ایک سنجیدہ عنصر وقت پر فیصلہ کرنے والے ووٹر کا ہے، اگر وہ دیکھتے ہیں کہ پنجاب میں ایک خاص پارٹی کامیاب ہوئی ہے تو اس کے دوسرے صوبوں میں قدرتی اثرات ہوں گے جو ناانصافی اور جمہوری اقدار کے برعکس ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے عام انتخابات کے حوالے سے کسی تصفیہ پر پہنچنے کی بھرپور کوشش کی، ہماری اور تحریک انصاف کی کمیٹی میں اتفاق رائے بھی ہوگیا تھا لیکن پی ٹی آئی چیئرمین نے اسے ویٹو کردیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کے انعقاد کا سوال توقعات کا نہیں بلکہ آئینی تقاضا ہے، انتخابات کا بروقت انعقاد ہونا چاہیے، یہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے تاہم یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے اور ہم اس کی پابندی کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ 9 مئی کو تحریک انصاف کے چیئرمین کو کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کے اقدامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے اپنے چار سالہ اقتدار میں نواز شریف سے لے کر پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں تک کو بے بنیاد الزامات کے تحت ساری اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا، لیکن تشدد کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، کوئی احتجاج نہیں ہوا، ہم نے مہذب انداز میں پارلیمنٹ میں اس پر آواز اٹھائی لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی ہدایت پر شرپسند جتھوں نے ملک کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جن میں فوجی تنصیبات بھی شامل تھیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ 6 جنوری 2021 کو امریکا میں کیپیٹل ہل میں جو ہوا، ان حملہ آوروں کو قانون کے مطابق عدالتوں کی طرف سے سزائیں دی جارہی ہیں، کیا پاکستان میں ایسے عناصر کے خلاف کوئی الگ سلسلہ ہونا چاہیے اگر ایک سنگین جرم ہوا ہے تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے عوام مل کر دنیا کے لیے امن و خوشحالی کے سفر کو آگے بڑھائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں