فٹبال میں نام کمانے کا خواب آنکھوں میں سجائے لیاری کی باصلاحیت لڑکیاں

06 جولائ 2023
روایتی ملبوسات زیب تن کیے فٹبال میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی لیاری کی لڑکیاں—تصویر: ڈبلیو آئی این
روایتی ملبوسات زیب تن کیے فٹبال میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی لیاری کی لڑکیاں—تصویر: ڈبلیو آئی این

ایک فٹبال میچ کے دوران 17 سالہ بختاور عبدالغفار شان دار کارگردگی کی وجہ سے اپنے ہمسایوں سے خوب پزیرائی وصول کررہی ہیں۔ وہ ہمسائے نہ صرف ان کے کھیل کے انداز کے مداح ہیں بلکہ وہ اپنی بیٹیوں کو فٹبال کی کوچنگ دینے کے حوالے سے بختاور کی قائدانہ صلاحیتوں کی بھی معترف ہیں۔

لیاری کی موسیٰ لین میں مقیم بختاور کے لیے فٹبال میں مہارت حاصل کرنا ایک مشکل ہدف تھا۔ لیکن وہ گزشتہ 8 سالوں سے فٹبال کھیل رہی ہیں اور اس دوران انہوں نے اپنی راہ میں آنے والے متعدد چیلنجز کا سامنا کیا۔

بختاور کہتی ہیں کہ ’فٹبال کھیلنا شروع کرنے سے پہلے میں اپنی گلی میں لڑکوں کو فٹبال کھیلتے دیکھتی تھی اور میں بھی ان کی طرح کھیلنا چاہتی تھی‘۔ بختاور نے لڑکوں سے دوستی کی تاکہ وہ ان کے ساتھ کھیل سکیں۔ تاہم انہیں اپنے محلے میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً ان کے تمام ہمسایوں نے ایک لڑکی کے یوں سڑک پر لڑکوں کے ساتھ فٹبال کھیلنے پر اعتراضات کیے۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’پھر بھی میرے گھر والوں نے میرا ساتھ دیا‘۔

پھر وہ گلی میں فٹبال کھیلنے کے بجائے لیاری کے معروف ککری گراؤنڈ میں کھیلنے لگیں۔ اس وقت لڑکوں کی ٹیم میں صرف دو لڑکیاں تھیں، بختاور اور مہرجان۔ یعنی ایک لڑکی نے مروجہ روایات کو توڑا اور یوں ایک اور لڑکی کے لیے فٹبال ٹیم میں جگہ بنائی۔

مہرجان ہر طرح کے کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں۔ وہ سائیکل بھی چلاتی ہیں لیکن فٹبال تو جیسے ان کا پہلا پیار ہے۔ لیکن ککری گراؤنڈ پر مرد فٹبالرز کا غلبہ ہے اور لڑکوں کے درمیان فٹبال کھیلتی ہوئی لڑکیاں الگ تھلگ نظر آتی ہیں۔ بعدازاں ان کی تیم میں چند دیگر لڑکیاں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ یہ تمام لڑکیاں اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے یہ چاہتی ہیں کہ معاشرہ انہیں قبول کرے۔

مہرجان بتاتی ہیں کہ ’ہمیں فٹبال کھیلتا دیکھنا لڑکوں کو حیرت میں مبتلا کردیتا ہے۔ لیکن جو چیز انہیں زیادہ حیران کُن لگتی ہے وہ لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ کھیلنا ہے۔ ہم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھیل جاری رکھا لیکن یہ آسان نہیں تھا‘۔

   مہرجان
مہرجان

وہ کہتی ہیں کہ ’لیاری، خصوصاً لی مارکیٹ کے متنازعہ ماضی کو دیکھتے ہوئے مجھے رشتہ داروں اور ہمسایوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مجھے یہاں سے گزر کر ککری گراؤنڈ جانا ہوتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ اس اعتراض کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کھیل میرے لیے ذریعہِ آمدنی نہیں ہے کیونکہ مجھے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میں فٹبال کھیل کر اپنا وقت ضائع کررہی ہوں‘۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’چونکہ میں ایک آرٹسٹ ہوں اور میں اسٹیج اور کمرے سجا کر (شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لیے) اتنا کما لیتی ہوں کہ اپنے فٹبال کے اخراجات اٹھا سکوں‘۔

لیاری میں لڑکیوں کے لیے حالات اس وقت بہتر ہوئے جب 2021ء میں وومنز از اے نیشن (ڈبلیو آئی این) نامی مقامی غیرمنافع بخش تنظیم، جس کا مقصد کھیلوں کے ذریعے لڑکیوں میں قائدانہ صلاحیتوں کو ابھارنا ہے، نے اپنا پہلا فٹبال ٹیلنٹ ہنٹ ایونٹ منعقد کیا۔

’لیاری کک‘ نامی پروگرام کے ذریعے ڈبلیو آئی این ایسی 50 لڑکیوں کو سامنے لے کر آیا جو کھلے میدان میں فٹبال کھیلنے کا خواب دیکھا کرتی تھیں۔ اور یوں لڑکوں کی فٹبال ٹیم میں ایک یا 2 لڑکیوں کے کھیلنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ اپنی خود کی فٹبال ٹیم بنا سکتی ہیں۔ ان لڑکیوں میں بختاور کی طرح موسیٰ لین سے تعلق رکھنے والی ایک اور باصلاحیت نوجوان کھلاڑی شمسا شاہنواز بھی شامل ہیں۔

   شمسا شاہنواز اپنے پسندیدہ گراؤنڈ گبول پارک میں کھیلتے ہوئے
شمسا شاہنواز اپنے پسندیدہ گراؤنڈ گبول پارک میں کھیلتے ہوئے

16 سالہ شمسا لڑکیوں کی کمیونٹی ٹیم کی گول کیپر ہیں۔ شمسا جنہیں ’جذباتی کھلاڑی‘ بھی کہا جاتا ہے، روز پریکٹس کے لیے گبول پارک گراؤنڈ جاتی ہیں۔ یہ گراؤنڈ دن بھر لڑکوں سے بھرا رہتا تھا۔

شمسا بتاتی ہیں کہ ’ابتدائی دنوں میں گبول پارک میں لڑکے مجھ پر طعنے کستے تھے اور مجھے تنگ کرتے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ کھیلنے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے بعد وہی لڑکے میری حوصلہ افزائی کرنے لگے‘۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ صرف اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کا معاملہ ہے اور درست وقت اور جگہ پر اپنی مہارت کا مظاہرہ کرکے خیالات تبدیل کیے جاسکتے ہیں‘۔ شمسا کو کھیلتا دیکھ کر ان کی چھوٹی بہن بھی فٹبال کھیلنا شروع کردیا ہے۔

ڈبلیو آئی این کی کوآرڈینیٹر اور کوچ مہرین شوکت کہتی ہیں کہ وہ لیاری میں لڑکیوں کے لیے فٹبال کلب بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں تقریباً 5 سالوں سے لڑکیوں کو فٹبال کی کوچنگ دے رہی ہوں‘۔ انہوں نے وہ دور بھی یاد کیا جب مردوں کو پتا چلا کہ وہ فٹبال کھیلنے میں دلچسپی رکھتی ہیں تو انہیں ان کی ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک بار میں ٹریک سوٹ پہنے اور ہاتھ میں فٹبال لیے رکشے میں سفر کررہی تھی۔ رکشہ ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں فٹبال کھیلتی ہوں۔ میں نے ہاں کہا تو وہ کہنے لگا کہ ایسی عادتوں کے ساتھ تم سے کون شادی کرے گا؟‘

  فٹبال میں نام کمانے کا خواب آنکھوں میں سجائے لیاری کی لڑکیاں
فٹبال میں نام کمانے کا خواب آنکھوں میں سجائے لیاری کی لڑکیاں

پہلے ٹریک سوٹ پہننے والی لڑکیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس سے نمٹنے کے لیے مہرین شوکت نے یہ خیال پیش کیا کہ لڑکیاں کچھ بھی پہنیں اس کے قطع نظر وہ ہر طرح کے لباس میں فٹبال کھیل سکتی ہیں۔

مہرین نے مزید کہا کہ ’ہم نے ’فیئر پلے‘کے نام سے ایونٹ منعقد کیا جس کا مقصد مقامی کمیونٹی کی لڑکیوں کو اس بات کی ترغیب دینا تھا کہ وہ اپنے روایتی ملبوسات میں بھی فٹبال کھیل سکتی ہیں۔ اس ایونٹ میں مقامی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی تقریباً 50 لڑکیوں نے روایتی بلوچ ملبوسات زیب تن کیا‘۔

جاوید عرب فٹبال اکیڈمی (جے اے ایف اے) کے جاوید عرب گزشتہ 30 سالوں سے لڑکوں کو فٹبال کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ لیکن اب لڑکیوں کو فٹبال کی تربیت دینا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہوچکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’لڑکیوں کو ٹریننگ دینے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے میں سب سے پہلے اپنی 14 سالہ بیٹی کو فٹبال کے میدان میں لے کر آیا‘۔

جاوید عرب اب تک بین الاقوامی سطح پر کھیلنے والی 9 پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹریننگ دے چکے ہیں۔ تاہم بطور کھلاڑی اور کوچ اپنے پورے کریئر میں انہوں نے کئی ایسے مسائل کا سامنا کیا جنہیں خواتین کھلاڑیوں کے لیے زیرِ غور لانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے نقطہ اٹھایا کہ ’یہاں سب سے بڑا مسئلہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ہے۔ اپنے کریئر کے درمیان ہی ان کا رشتہ طے ہوجاتا ہے یا ان کی شادی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان کا کریئر رُک جاتا ہے‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب وہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے تحت کھیل رہی ہوتے ہیں تو ان لڑکیوں کو ضروری تربیت اور وظیفہ دیا جاتا ہے لیکن واپس آنے کے بعد انہیں نہیں پوچھا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ پی ایف ایف بہترین کام کررہا ہے لیکن باصلاحیت کھلاڑیوں کے لیے مناسب سماجی اور مالیاتی تحفظ کا طویل مدتی منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے میں ان کے تعلیمی اخراجات کو بھی شامل کیا جائے۔ یوں وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر پوری طرح توجہ دے سکیں گی‘۔


یہ مضمون 2 جولائی 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں