عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 3ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دے دی ہے۔

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے منظوری کے بعد 1.2 ارب ڈالر فوری طور پر جاری کردیے جائیں گے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق آئی ایم ایف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 9 ماہ کے دوران 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری دے دی ہے تاکہ پاکستان کے معاشی استحکام کے پروگرام کو سپورٹ کیا جا سکے۔

اس سلسلے میں کہا گیا کہ یہ اس معاہدے کا انتظام ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب پاکستانی معیشت مشکل حالات سے گزر رہی ہے، مشکل بیرونی ماحول، تباہ کن سیلاب اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسے بڑے مالی اور بیرونی خسارے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیزی سے ختم ہوتے ہوئے زرمبادلیہ کے ذخائر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

گزشتہ ماہ ہونے والے اس معاہدے کے لیے پہلی قسط کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری درکار تھی اور اب پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کر دی جائے گی جبکہ بقیہ دو اقساط سہ ماہی بنیادوں پر دو جائزوں کے بعد جاری کی جائیں گی۔

آئی ایم ایف پروگرام ملکی اور بیرونی عدم توازن دور کرنے کے لیے پالیسی اور کثیر الجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کی مالی مدد کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرے گا۔

بیان میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام مالی سال 2024کے بجٹ کا مؤثر نفاذ یقینی بنائے گا تاکہ پاکستان کی ضروری مالیاتی ایڈجسٹمنٹس آسان بنائی جا سکیں اور اہم سماجی اخراجات محفوظ بناتے ہوئے قرض کی پائیداریت یقینی بنائی جا سکے۔

اس کے علاوہ بیرونی دباؤ برداشت کرنا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ کا تعین بھی پروگرام کا اہم مقصد ہے۔

واضح رہے کہ یہ معاہدہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب گزشتہ روز ہی سعودی عرب نے پاکستان کو 2ارب ڈالر قرض فراہم کیا تھا اور آج متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرض دیا ہے۔

کوشش ہے جولائی کے اختتام تک قومی ذخائر 14 سے 15 ارب ڈالر تک ہوں، اسحٰق ڈار

وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اللہ کا شکر ہے چیزیں درست سمت پر جا رہی ہیں، جس کے لیے ہم کئی مہینوں سے کوشش کر رہے تھے اور مشکل مذاکرات تھے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمار 2019 اور 2022 والا پروگرام جو ایک سال وسیع ہوا، اس میں ہمیں نویں جائزے کے لیے 1.19 ارب ڈالر کی توقع کر رہے تھے، باقی سب ختم ہوجانا تھا تو آخر میں ہماری جو زیادہ توانائی خرچ ہوئیں وہ اسی پر ہوئیں کہ جو ڈھائی ارب بچا ہے وہ اس میں آئی ایم ایف ملا دے اور اسٹینڈ بائی معاہدہ کرے تو اس میں ہمیں کامیابی ہوئی اور ٹیکسز بھی بڑھانے پڑے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب نے ساتویں جائزے کے وقت کہا تھا کہ دو ارب تک مدد کریں گے اور متحدہ عرب امارات نے بھی کہا تھا کہ ہم ایک ارب ڈالر دیں گے تو یہ 8 سے 9 مہینے پرانے وعدے تھے اور ابھی انہوں نے اس کو دوبارہ تازہ کیا تھا‘۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کا دورہ کیا تھا جہاں میں ان کے ساتھ تھا اور ان تمام ممالک میں ہم نے معاملات اٹھائے تھے‘۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میری کوشش ہے کہ اس حکومت کی مدت مکمل ہونے تک، ممکنہ طور پر جولائی کے اختتام تک قومی ذخائر 14 سے 15 ارب ڈالر کے درمیان ہوں، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 5.2 یا 5.3 ارب نکال دیں تو اسٹیٹ بینک کے ذخائر 9 سے پونے 10ارب ہوں گے تو ہم 14 سے 15 ارب کے درمیان ہوں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے مالی اصلاحات کرنی تھی اور 3 سے 4 سال سے ہمارا پروگرام التوا کا شکار تھا اور 4 بڑے اہم اقدامات پچھلے چند برسوں میں نہیں ہوئے تھے اور جب میں نے ذمہ داری سنبھالی تو میں نے کرلیے تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان میں اہم ہارمونائزیشن آف جی ایس ٹی سسٹم ان پاکستان تھا، اس میں صوبوں اور صوبائی وزرائے خزانہ کا بڑا عمل دخل تھا اور چونکہ ہم چاروں اقدامات کرچکے ہیں اور ہم آئی ایم ایف پر نہیں تھے تو جو بجٹ سے متعلق تعاون کے حوالے سے پیسے ہوتے ہیں وہ بھی ہمیں نہیں ملتے لیکن اب وہ 45 کروڑ بھی ملیں گے، اس میں 25 کروڑ ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کا مشترکہ مالی تعاون ہے اور مجموعی طور پر ہمیں 70 کروڑ ملنے ہیں‘۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’اسی طرح پاکستان انویسٹمنٹ پالیسی بھی کافی عرصے سے بجٹری سپورٹ اور پروگرام لینڈنگ کے طور پر ایشین ڈیولپمنٹ بینک کا پروگرام تھا، وہ بھی کام مکمل نہیں ہوا تھا تو وہ بھی 25 کروڑ ڈالر بھی کروا دیا ہے اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے اس کی بھی تصدیق کر دی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک سال میں جتنے مشکل حالات رہے ہیں اور اس کے باوجود اپریل 2022 کی صورت حال پر ہم لے کر جاتے ہیں تو پاکستان ایک اچھی سمت پر چلے گا‘۔

آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کا سوچنا بھی جرم ہے، وزیر خزانہ

نگران حکومت آنے اور سیاسی کشیدگی کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی کے خدشات پر ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا سوچنا بھی مجرمانہ عمل ہے، پچھلی حکومت پر الزام دینا نہیں چاہتا جب تحریک عدم اعتماد آئی تو انہوں نے آناً فاناً نہ صرف جو مزید اصلاحات کرنی تھی وہ نہیں کی بلکہ جو کر رہے تھے وہ بھی واپس کردیا تو پاکستان نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے ’اعتماد کا فقدان پیدا ہوا تھا، پاکستان کی کریڈیبلٹی کو نقصان پہنچا اور اس کی وجہ سے ہمیں جو کام کرنے تھے اس کے بارے میں کہا گیا پہلے کریں گے تو اگلی بات ہوگی، اسی لیے عملے کی سطح پر معاہدے سے قبل ہم یہ سارے اقدامات کرچکے تھے اسی لیے شرائط کی خلاف ورزی کا سوچنا بھی جرم ہے حالانکہ یہ اصلاحات ہمارے مفاد میں ہیں اور اس پر عمل ہونا چاہیے‘۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’اتحادی حکومت کے طور پر ہماری کوشش ہوگی کہ ہم چیزیں ٹریک پر لے آئے ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں رکھی ہے جو نگران حکومت یا کسی اور کے لیے مشکل ہو کیونکہ ہم اکثر اقدامات کر چکے ہیں‘۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ ’میں سمجھتا کہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اگلے 9 مہینوں میں نگران حکومت اور جو بھی مستقل حکومت آئے وہ اس پروگرام کو کامیابی کے ساتھ مکمل نہ کرسکے کیونکہ جو مشکل یا تکلیف دہ مرحلہ تھا وہ گزر چکا ہے‘۔

معاہدے کے بعد پاکستان کے لیے فنڈنگ کے ماحول میں بہتری آئی ہے، بلومبرگ

امریکی ادارے بلومبرگ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ملک کے لیے فنڈنگ کے ماحول میں بہتری آئی ہے اور رواں ہفتے عالمی ریٹنگ ایجنسی ’فچ‘ نے بھی پاکستان کی ریٹنگ اپ گریڈ کر کے ’ٹرپل سی‘ کر دی ہے۔

ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ پاکستان کے لیے بیل آؤٹ پیکج آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے باضابطہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا جس کے باعث قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان کے حوالے سے قیاس آرائیاں ختم ہوگئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے مرکزی بینک میں 2 ارب ڈالر ڈپازٹ کروانے کی تصدیق کی ہے جبکہ عالمی ریٹنگ ایجنسی ’فچ‘ نے بھی پاکستان کی ریٹنگ اپ گریڈ کر کے’ٹرپل سی’کر دی ہے۔

بلومبرگ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات اکتوبر میں ہونے والے ہیں، وفاقی حکومت ملک کے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے جبکہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے بھی کوششیں تیز کر دی ہیں جن میں محصولات اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور اخراجات میں کمی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جولائی میں شروع ہونے والے مالی سال میں 23 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے 6 گنا زیادہ ہیں، ان ادائیگیوں کے لیے آئی ایم ایف کا قرضہ معاون ثابت ہو گا۔

بلومبرگ نے کہا کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ جولائی کے دوران عالمی سطح پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی منڈیوں میں شامل ہے جبکہ ڈالر بانڈز میں ایک ماہ کے دوران 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

آئی ایم ایف معاہدہ

خیال رہے کہ جون میں جاری کیے گئے پہلے شیڈول میں پاکستان ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، جس سے قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ آئی ایم ایف 30 جون کو ختم ہونے والے سابقہ پروگرام کے تحت فنڈز جاری نہیں کرے گا۔

تاہم 29 جون کو آئی ایم ایف اور پاکستان نے ملک کا معاشی بحران کم کرنے کے لیے عملے کی سطح پر 3 ارب ڈالر اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ کیا۔

اس معاہدے کا پاکستان کو طویل عرصے سے انتظار تھا جس کی ڈولتی معیشت ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا سامنا کر رہی تھی۔

تقریباً 8 ماہ کی تاخیر کے بعد ہونے والا یہ معاہدہ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط تھا، جس سے ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستان کو کچھ مہلت ملے گی۔

9 مہینوں پر محیط 3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے، کیونکہ ملک 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا، جس کی میعاد گزشتہ ماہ ختم ہو گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں