پی ٹی آئی سے علیحدگی کے بعد پرویز خٹک نئی پارٹی بنانے کیلئے سرگرم

16 جولائ 2023
پرویز خٹک کے ساتھ رابطے میں رہنے والے تقریباً سبھی اراکین نے نئی پارٹی میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی—فائل فوٹو: آئی این پی
پرویز خٹک کے ساتھ رابطے میں رہنے والے تقریباً سبھی اراکین نے نئی پارٹی میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی—فائل فوٹو: آئی این پی

خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اپنی رکنیت ختم ہونے کے چند روز بعد اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کے لیے تیار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سابق رہنما پرویز خٹک (جنہوں نے 2018 سے 2022 تک وفاقی وزیر دفاع کے طور پر خدمات انجام دیں) کو پی ٹی آئی کے سابق اراکین اسمبلی کو پارٹی چھوڑنے کی ترغیب دینے کے الزام میں پی ٹی آئی سے نکال دیا گیا ہے۔

اس پیشرفت سے واقف ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک کی جانب سے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں اپنی پارٹی کے آغاز کا اعلان متوقع تھا لیکن کچھ لوگوں کی لاتعلقی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا جو پہلے پارٹی میں شامل ہونے پر رضامند ہوگئے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک (جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں نوشہرہ کے حلقہ این اے-25 سے کامیابی حاصل کی تھی) اب بھی اپنے سابق پارٹی ساتھیوں سے مشاورت کر رہے ہیں اور اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اور کابینہ کے کچھ ساتھی پرویز خٹک سے آئندہ انتخابات میں جیت کی ضمانت اور واضح یقین دہانیاں چاہتے ہیں اور سیاسی خطرہ مول لینے سے گریزاں ہیں۔

ذرائع نے کہا کہ پرویز خٹک کے ساتھ رابطے میں رہنے والے تقریباً سبھی اراکین نے نئی پارٹی میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن وہ انتخابات میں یقینی جیت کی ضمانت چاہتے ہیں، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کی کابینہ کا حصہ رہنے والے کچھ ارکان بھی ان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے تیار ہیں، تاہم کچھ سابق اراکین اسمبلی پرویز خٹک کا ساتھ دینے کے بجائے پارٹی کے اندر ایک فارورڈ بلاک بنانا چاہتے ہیں۔

پرویز خٹک (جو 2012 میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے 4 برس تک آفتاب شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی میں تھے) بڑے پیمانے پر ’الیکٹ ایبلز‘ کے گروپ کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں، اب وہ انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے کے لیے الیکٹ ایبلز کی بڑی تعداد کو ساتھ ملانے کے خواہاں ہیں۔

تاہم ذرائع نے کہا کہ یہ سب کہنا آسان ہے مگر کرنا مشکل، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے بہت سے سابق اراکین صوبائی اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ مکمل طور پر پارٹی چیئرمین عمران خان کے سیاسی مستقبل پر منحصر ہوگا، وہ سیاسی منظرنامے میں موجود رہے تو انہیں ڈر ہے کہ اسمبلی نشستیں ان کے پاس ہی رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے سابق اراکین اسمبلی، جو پرویز خٹک کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، اب بھی تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں پی ٹی آئی کا سیاسی منظرنامہ غیر واضح ہےکیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ تاحال نہیں ہوا ہے۔

یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پرویز خٹک کو پارٹی کا صوبائی صدر بنایا گیا تھا، رواں برس 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کے پیش نظر پرویز خٹک نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، 21 جون کو پی ٹی آئی نے انہیں پارٹی کارکنوں سے رابطہ کرنے اور مبینہ طور پر پارٹی چھوڑنے پر اکسانے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹس میں کہا گیا کہ ’یہ پارٹی قیادت کے نوٹس میں آیا ہے کہ آپ پارٹی کے ارکان سے رابطہ کر رہے ہیں اور انہیں پارٹی چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں‘، تاہم انہوں نے اس نوٹس کا کوئی جواب نہیں دیا جس کے بعد رواں ہفتے کے آغاز میں پی ٹی آئی نے پرویز خٹک کی بنیادی پارٹی رکنیت ختم کر دی۔

گزشتہ ماہ یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کے سابق اراکین اسمبلی اور دیگر اہم شخصیات سے کئی ملاقاتیں کیں اور انہیں پارٹی چھوڑنے پر آمادہ کیا۔

خیبرپختونخوا میں پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پرویز خٹک کی جانب سے پارٹی اراکین سے رابطے کا علم ہوگیا تھا اور انہوں نے کہا کہہ دیا تھا کہ جو لوگ دباؤ اور گرفتاری برداشت نہیں کر سکتے وہ پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔

تاہم عمران خان نے دیگر اراکین کو پی ٹی آئی چھوڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے پرویز خٹک کی کوششوں کا بھی سخت نوٹس لیا، اسی وجہ سے پرویز خٹک کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے پرویز خٹک سے رابطے کی بار بار کوشش کی گئی تاہم انہوں نے جواب نہیں دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں