لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

موجودہ قومی اسمبلی اور 2 صوبائی اسمبلیوں کی 5 سالہ میعاد پوری ہونے میں ایک ماہ سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے جس کے بعد 60 یا 90 دنوں میں الیکشن کا انعقاد ضروری ہوگا۔ لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں سمیت ملک کی 5 اسمبلیوں میں آئین کی مقرر کردہ مدت میں انتخابات کا انعقاد مشکل نظر آرہا ہے۔

ان شکوک و شبہات کی دو ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں۔ آئین یہ کہتا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دنوں میں انتخابات کا انعقاد ضروری ہے لیکن پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاقی حکومت نے مختلف بہانوں سے مقررہ مدت میں انتخابات منعقد کرنے سے انکار کیا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے 8 اکتوبر کو انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے شیڈول کو کالعدم قرار دیا تھا اور اس کے بجائے کمیشن کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کروانے کی ہدایت کی تھی۔ البتہ اس حکم پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔

قومی اسمبلی نے انتخابات کے لیے فنڈز کی منظوری دینے سے انکار کردیا اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے سیکیورٹی کی فراہمی بھی غیریقینی تھی۔

یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات اور آئینی تقاضوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت دونوں نے محسوس کیا اور بعد میں اس کا اظہار بھی کیا کہ نگراں حکومتوں کی موجودگی میں صرف دو صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوں گے جبکہ ایک سیاسی حکومت وفاق پر حکومت کرتی رہے گی۔ ایسے میں انتخابات غیر منصفانہ ہوں گے جس کے نتائج ہارنے والی جماعتیں قبول نہیں کریں گی۔

ان تمام دلائل کے باوجود ووٹرز کی ایک بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات صرف اس لیے نہیں کروائے گئے کیونکہ سپورٹرز کی بڑی تعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان تھا کہ پی ٹی آئی ممکنہ طور پر جیت جائے گی۔ انتخابات کی طے شدہ تاریخوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔

دوسری وجہ جس سے عوام انتخابات کے بروقت انعقاد پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں اس کا تعلق ہماری انتخابی تاریخ سے ہے۔ مثال کے طور پر 1970ء کے پہلے براہ راست قومی انتخابات اور اس کے بعد سے جیتنے والی جماعتوں یا ان جماعتوں کو اقتدار میں دوبارہ نہیں آنے دیا گیا جن کے مقتدر حلقوں سے تعلقات خراب ہوگئے تھے۔**

شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت نے 1970ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 53 فیصد نشستیں حاصل کی تھیں۔ وہ غیر متنازعہ طور پر فاتح تھے لیکن انہیں اقتدار سنبھالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

حتیٰ کہ اسمبلی کا اجلاس تک نہیں بلایا گیا کیونکہ شیخ مجیب الرحمٰن کا نئے آئین کا تصور ملک کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان اور مغربی پاکستان کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو منظور نہیں تھا۔

1985ء کے انتخابات کے بعد جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا لیکن انہیں صرف اس لیے برطرف کردیا گیا کیونکہ انہوں نے خود فیصلے لینے کی کوشش کی۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے ان کی برطرفی کو غیرقانونی قرار دے کر ختم کیا لیکن انہیں بحال نہیں کیا گیا کیونکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جاچکا تھا۔

بےنظیر بھٹو جو 1988ء کے انتخابات میں منتخب ہوئیں، انہیں بھی 2 سال میں برطرف کردیا گیا جس کے بعد انہیں 1990ء کے انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ نواز شریف نے اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کی اور وہ اگلے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن 1993ء میں انہیں بھی برطرف کردیا گیا۔ بعدازاں بےنظیر بھٹو نے 1993ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔

1997ء کے انتخابات میں بےنظیر بھٹو کی جماعت کی کارکردگی بدترین رہی۔ نواز شریف نے یہ انتخابات دو تہائی اکثریت سے جیتے جبکہ اس اکثریت سے پاکستان میں کسی جماعت کو بہت کم ہی مواقعوں پر کامیابی ملی ہے۔ تاہم، 1999ء کی فوجی بغاوت کے بعد نہ صرف انہیں برطرف کیا گیا بلکہ انہیں قید اور جلاوطنی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ پھر نواز شریف اور ان کی جماعت 14 سال کے انتظار کے بعد 2013ء میں برسرِ اقتدار آئے۔

حتیٰ کہ مسلم لیگ (ق) جو جنرل پرویز مشرف کی حمایت سے 2002ء میں اقتدار میں آئی تھی، وہ 2008ء کے انتخابات میں ناکام ہوئی۔ چوہدری شجاعت حسین نے 2008ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام پرویز مشرف پر لگایا کہ انہوں نے ایسا پیپلز پارٹی کو فائدہ پہچانے کے لیے کیا۔

انتخابی تاریخ میں کامیابی اور ناکامی کا ایک مخصوص پیٹرن ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی کو روکنے کے لیے جنرل ضیاالحق نے 8 برس تک انتخابات کو ملتوی کیا۔

2018ء میں عمران خان کامیاب ہوئے اور وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن پھر انہوں نے ایک سرخ لکیر عبور کرنے شروع کردی۔ اپریل 2022ء میں انہیں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں برطرف کردیا گیا۔ بظاہر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں تلخیاں بڑھتی گئیں۔

آج انہیں ہم ایک ایسے پارٹی سربراہ کے طور پر بیان کرسکتے ہیں جن کے فوج کے ساتھ سب سے زیادہ کشیدہ تعلقات ہیں۔ اگرچہ یہ کوششیں جاری ہیں کہ وہ ذاتی حیثیت سے اگلے انتخابات میں حصہ نہ لے پائیں اور اراکین کی بڑی تعداد کے انحراف کے نتیجے میں ان کی جماعت کمزور ہوچکی ہے لیکن پی ٹی آئی چیئرمین اور ان کی جماعت کو انتخابی منظرنامے سے ہٹانے کا منصوبہ ابھی اپنی تکمیل کے قریب نہیں پہنچا ہے۔

اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف نے اگست کے وسط میں حکومت کی میعاد پوری ہونے کا اعلان کیا ہے اور پیپلز پارٹی اور جمعیتِ علمائے اسلام (ف) سمیت ان کے دیگر اتحادیوں نے وقت پر انتخابات کروانے کی حمایت کی ہے لیکن انتخابات کے حوالے سے تجربہ رکھنے والے لوگوں کو ہماری انتخابی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی چیئرمین کو انتخابی منظرنامے سے مکمل طور پر نہیں ہٹایا جاتا تب تک انتخابات کے انعقاد کی کوئی گارنٹی نہیں۔

2023ء کی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں پر بھی سوالات کھڑے ہورہے ہیں جوکہ آئندہ انتخابات کو مزید غیریقینی بنا رہے ہیں۔ حالیہ مردم شماری شیڈول سے 4 سال قبل کی گئی تاکہ 2023ء کے عام انتخابات نئی مردم شماری پر مبنی ہوں کیونکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت کئی جماعتوں نے 2017ء کی مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اب 2023ء کی مردم شماری کی بنیاد پر تازہ حلقہ بندیاں کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 51 (3) میں ترمیم کرنے کے لیے وہ مطلوبہ نمبرز نہیں ہے جوکہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے ہونا شرط ہے۔

بظاہر یہ لگتا ہے کہ انتخابات کے باقاعدہ انعقاد تک بے یقینی کی یہ صورتحال جاری رہے گی۔ اور صرف انتخابات کا انعقاد ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ انہیں آزادانہ اور منصفانہ بھی ہونا چاہیے۔


یہ مضمون 17 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں