اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


پرواز روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ قطار اندر قطار آتے مسافر اب جہاز کے دروازے سے ہجوم اندر ہجوم آنے لگے تھے کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے آبا و اجداد کی روایات کو مزید مستحکم کرتے ہوئے ہوائی اڈے پر دیر سے پہنچے تھے اور کچھ امیگریشن اور کسٹم کے عملے سے ’گپ شپ‘ لگانے کے بعد جہاز تک رسائی حاصل کر پائے تھے۔

عملہ مسافروں کو اپنی مقرر کردہ نشستوں پر بٹھانے کا مشکل مرحلہ سر کر چکا تھا اور میں بھی سامان رکھنے کے کھلے ہوئے بالائی خانے بند کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک بیگ پر پڑی۔

بالائی خانے میں زبردستی ٹھونسا ہوا یہ بیگ اس حالت میں باہر لٹک رہا تھا جیسے کوئی چھوٹا بچہ اپنے جھولنے سے پیٹ کے بل نکلتے ہوئے ٹانگیں باہر نکالے پھنسا ہوا ہو۔ میں نے وہاں بیٹھے مسافروں سے پوچھا تو کوئی بھی اس بیگ کا وارث نہ نکلا۔ میں نے اپنے سینیئر اور انہوں نے زمینی عملے کو اس لاوارث بیگ کے بارے میں فوراً مطلع کیا اور جہاز پر اعلان کروایا کہ فلاں فلاں خدوخال پر مبنی جن کا بیگ ہے وہ عملے سے رابطہ کریں۔

جہاز میں موجود لاوارث بیگ کے حوالے سے مطلع کیا گیا
جہاز میں موجود لاوارث بیگ کے حوالے سے مطلع کیا گیا

کچھ منٹ تک کوئی نہ آیا تو مسافروں کے ساتھ عملے کے اندر بھی بے چینی بڑھنے لگی۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ لگتا ہے واقعی ’جن‘ کا بیگ ہے اسی لیے کوئی لینے نہیں آرہا۔ میرے ساتھی نے مجھے ایک نازیبا لفظ کہتے ہوئے پیار سے سمجھایا کہ اگر کوئی نہیں آیا تو سیکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے جہاز خالی کروانا پڑے گا۔ سب مسافر اتریں گے۔ سامان کی دوبارہ جانچ ہوگی اور جہاز کلیئر ہونے کے بعد پھر سے بورڈنگ ہوگی۔ باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن دوبارہ بورڈنگ کا سن کر اندرونی طور پر میں ایک مشہور رقاصہ کے کسی ڈانس اسٹیپ کی طرح تھر تھرا کر رہ گیا۔

میں نے کان سے بیگ لگا کر الٹی گنتی اور ٹک ٹک کی آواز سننے کی کوشش کی مگر بے سود۔ بس فیصلہ ہونے ہی والا تھا کہ کوئی حفاظتی اقدامات کیے جائیں کہ اچانک جہاز کے درمیان میں سیدھے ہاتھ پر موجود ٹوائلٹ کا دروازہ کھلا اور کلنٹ ایسٹ ووڈ کی فلم دا گڈ، بیڈ اینڈ اگلی کے میوزک کا مکھڑا سب کے کانوں میں بجا۔ ایک ادھیڑ عمر انسان، بکھرے سفید گیسو مثل آئن اسٹائن، شلوار قمیض تقریباً پینٹ شرٹ کے انداز میں پہنے (بوجوہ بیت الخلا سے جلدی میں نکلنے کے) سامنے آ موجود ہوئے۔ قریب آئے تو میں نے دیکھا کہ ان کے کلین شیو منہ پر پسینے کے قطروں کی مونچھیں بھی بڑی شان سے چمک رہی تھیں۔

خیر انہوں نے خود کو بیگ کا وارث قرار دیا۔ زمینی عملے سے سرزنش کے چند فقرے سنے اور معاملہ ختم ہوا۔ جناب کی نشست نمبر 60 کی قطار میں تھی اور سامان 26 پر رکھ گئے کہ جہاز سے نکلتے ہوئے اٹھا لے جاؤں گا۔ باوجود متعدد اعلانات کے کہ اپنا سامان اپنے ساتھ رکھیں اکثر مسافر ایسے فعل کے مرتکب ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے انتہائی پیچیدہ صورت حال میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ جہاز میں بھی اپنا سامان اپنے ساتھ رکھنا ہوتا ہے ورنہ ذرا سی لاپروائی سے معاملہ بگڑ سکتا ہے۔

جہاز میں کوئی مشتبہ بیگ ملے تو جہاز خالی کرواکے دوبارہ چیکنگ کی جاتی ہے
جہاز میں کوئی مشتبہ بیگ ملے تو جہاز خالی کرواکے دوبارہ چیکنگ کی جاتی ہے

ایک اور پرواز پر سب سے پہلے ایک صاحب کو وہیل چیئر پر لایا گیا۔ یہ بورڈنگ کا اصول ہے کہ جسمانی طور پر جن مسافروں کو مسائل درپیش ہوں ان کو جہاز میں سب سے پہلے سوار کروایا جاتا ہے اور اترتے وقت سب سے آخر میں جہاز سے نکالا جاتا ہے۔ خیر انہیں درجہ دوم (اکانومی کلاس) کی سب سے اگلی نشست پر بٹھایا گیا کیونکہ ان کی ٹانگ میں غالباً وہ سریا پڑا تھا جو عموماً بادشاہوں کی گردنوں میں ہوتا ہے اور ساتھ ہی نورانی پلاسٹر سے ٹانگ مکمل جکڑی ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے ان کے ساتھ والی نشستیں خالی تھیں۔

جہاز کے دروازے بند ہوئے اور خوش آمدیدی اعلانات شروع ہوتے ہی ان کی اصراری گردان شروع ہوگئی کہ ’میں آگے ( یعنی درجہ اول میں) بیٹھنا چاہتا ہوں، مجھے آگے بیٹھنا ہے، مجھے آگے بٹھا دیں‘۔ ان کو سمجھایا کہ یہ بات زمینی عملے سے نشست کے حصول سے پہلے کی جاتی ہے لیکن اڑان بھرنے کے بعد بھی وہ بضد رہے۔ چونکہ وہ میرے حصے میں آئے تھے لہٰذا مجھے ہی ان سے بات کرنی پڑی۔

باقاعدہ تعارف ہوا تو پڑھے لکھے نکلے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ گردان مسلسل تھی کہ آگے بٹھا دیں۔ عرض کی کہ حضور اس نشست سے آگے تو دیوار ہے (بلک ہیڈ یعنی مصنوعی دیوار جو جہاز کے درجوں کی تقسیم کے لیے لگائی جاتی ہے) چنانچہ آپ کو انار کلی بننا پڑے گا۔ کہنے لگے کیا مطلب؟ میں نے کہا چھوڑیں یہ بتائیں اس حال کو کیسے پہنچے۔ بولے میاں کیا بتاؤں بس ایک قلبی واردات کا قصہ ہے۔ پوچھا کیا ہماری ہونے والی بھابی کے بھائیوں کی کارستانی ہے؟ کہنے لگے ’ارے نہیں کتے والے کلبی کی بات کررہا ہوں، پیدل سڑک پر جا رہا تھا کہ ناسور کسی کتے کی طرح پیچھے پڑ گیا۔ میں گھبراہٹ میں سڑک کے بیچ ہی بھاگ نکلا اور دائیں سے آنے والی گاڑی سے بچتا ہوا بائیں طرف سے آنے والی وین سے ٹکرا گیا۔ مجھے آگے بٹھا دیں‘۔

مسافر بار بار بزنس کلاس میں بیٹھنے کی ضد کررہے تھے
مسافر بار بار بزنس کلاس میں بیٹھنے کی ضد کررہے تھے

پھر تفصیل سے ان کو سمجھایا کہ دنیا بھر کا فضائی عملہ ذات پات کی تقسیم کے علاوہ دورانِ پرواز درجات کی تقسیم پر بھی یقین نہیں رکھتا بلکہ یہ اس کے اختیار میں بھی نہیں ہوتا۔ اگر آپ جسمانی طور پر مشکلات کا شکار ہیں اور ہوائی سفر کے لیے ٹکٹ خرید رہے ہیں تو اس وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کون سے درجے میں نشست حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ درجہ اول کی نشست مہنگے داموں بکتی ہے لہذا اپنی پسندیدہ نشست کے پیسے بھر کر جہاز پر تشریف لائیں۔ شکر ہے ان کو یہ بات پھر بھی سمجھ نہیں آئی اور میرا سفر بہت ہی آرام دہ گزرا۔

بہت سے مسافر خواتین و حضرات اپنی ایسی ہی دلی خواہشات کا اظہار دنیا بھر کے فضائی میزبانوں سے کرتے رہتے ہیں لیکن کچھ اختیارات عملے کے پاس نہیں ہوتے۔ مسافر کو پرواز پر کون سی نشست چاہیے، کون سا کھانا چاہیے یا کون سا مشروب (حلالی اور بعض ایئر لائنز میں جلالی) چاہیے، یہ سب آج کل پہلے سے طے کیا جاسکتا ہے۔ لہذٰا مسافروں سے گزارش ہے کہ پرواز پر آنے سے پہلے اپنے پسندیدہ انتخابات مکمل کرکے آئیں اور پرواز کو آرام دہ اور خوش گوار بنائیں، اپنے لیے اور قوم کے لیے۔

تبصرے (0) بند ہیں