بڑے ہم سے وہی سیاست کرانا چاہتے ہیں جو 30 سال انہوں نے بھگتی ہے، بلاول بھٹو زرداری

اپ ڈیٹ 07 اگست 2023
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو ہمیں ایک ایسی اپوزیشن ملی جس کو نہ جمہوریت کی فکر تھی، نہ پارلیمان کی — فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو ہمیں ایک ایسی اپوزیشن ملی جس کو نہ جمہوریت کی فکر تھی، نہ پارلیمان کی — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جیسے 30 سال انہوں نے بھگتا ہے ہم بھی آگے جاکر وہی سیاست کریں، ملک کے نوجوان اس روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے ایوان میں گالم گلوچ اور بدتہذیبی کی سیاست نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی مخالفت کرتے تھے تو جمہوری دائرے میں رہنے کی کوشش کرتے تھے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اپوزیشن میں ہوتے ہوئے دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے تھے اور مسلط حکومت کو بے نقاب کرنا چاہ رہے تھے مگر ہر وقت ہمارے ذہن میں یہ ہوتا تھا کہ ہم سے ایسا کام نہ ہو جس سے سسٹم کو نقصان ہو، جمہوریت کو دھچکا پہنچے اور تیسری قوت یا غیر جمہوری قوت فائدہ لے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری توجہ اس پر دی کہ عدم اعتماد کے ذریعے سلیکٹڈ وزیراعظم کو نکالنا ہے، تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا لیکن تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے ہم اس میں کامیاب ہوئے اور تاریخ رقم کی اور سلیکٹڈ وزیراعظم کو ووٹ کے ذریعے گھر بھیج کر اتحادی وزیر اعظم کو منتخب کیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ہم سب نے ارادہ کیا کہ جو غلطیاں پہلے ہوئی ہیں ان کو درست کرنے کی کوشش کریں، سویلین اداروں کو مضبوط بنائیں، پارلیمان کے وقار کو بحال کیا جائے، جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اور اب تاریخ فیصلہ کرے گی کہ ہم اس میں کامیاب ہوئے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو ہمیں ایک ایسی اپوزیشن ملی جس کو نہ جمہوریت کی فکر تھی، نہ پارلیمان، نہ ملک اور نہ ہی کارکنان کی فکر تھی اور انہوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں وہ ریڈ لائن عبور کی جو کبھی نہیں ہوئیں کیونکہ جب ایک وزیراعظم (ذوالفقار بھٹو) کو تختہ دار پر چڑھایا گیا اور دو وزرائے اعظم کو جلاوطن کیا گیا تب بھی اس قسم کی سیاست نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسی اپوزیشن ملی جس نے تاریخ میں پہلی بار جناح ہاؤس اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا، اور جب ایسا قدم اٹھایا جاتا ہے تو پھر ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے ایسے کچھ اقدام اٹھانے پڑے تاکہ پھر سے ایسے کام نہ ہوں، لیکن افسوس کے ساتھ ہمیں جو نظر آرہا ہے ہماری اپوزیشن کوئی سبق نہیں سیکھ رہی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اپوزیشن کا سیاست کا طریقہ کار اور انداز آج بھی وہی ہے کہ یا میں کھیلوں گا یہ کسی کو نہیں کھیلنے دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اس نظام کو کیسے چلنے دیں گے، پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف یہ ہے کہ نیا میثاق جمہوریت نہ ہی سہی پرانے میثاق جمہوریت کو تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو تسلیم کرنا ہوگا، ہمیں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا واپڈا کو وفاقی وزیر برائے آبی وسائل چلائیں گے یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس کو چلائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں 15 ماہ کا جو وقت ملا اس میں ہم تمام اداروں کو دائرہ اختیار میں کام کرانے کے حوالے سے کامیاب نہیں ہوئے، مزید کہا کہ اپوزیشن پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنا رویہ درست کرے اور ہم پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم سب سیاستدان بنیں، سیاست و جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں نے کچھ دن قبل بھی یہ بیان دیا تھا کہ نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو ایسے فیصلے لینے چاہئیں جس سے میرے اور مریم نواز کے لیے آگے جاکر سیاست آسان ہو نہ کہ مشکل۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیسے ہم چل رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جیسے 30 سال آپ نے بھگتا ہے ہم بھی آگے جاکر وہی سیاست کریں، ہمارے ملک کے نوجوان اس روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں، وہ اب نہ ہم پر بھروسہ کرتے ہیں نہ کسی اور پر جبکہ ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہماری نوجوان نسل ہے۔

قومی اسمبلی میں متعد بل منظوری کے لیے پیش

قومی کمیشن برائے اقلیتی بل 2023 پیش کرنے کی تحریک پیش کی گئی جہاں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا۔

وفاقی وزیراعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس بل میں اقلیتوں کے حوالے سے اچھی ترامیم کی ہیں اسے ضرور منظور کیا جائے۔

عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ ہم اقلیتوں کو اسلام کے مطابق حقوق دینے کے حق میں ہیں، اس بل کو اس وقت پاس کرنا انتہائی غلطی ہو گی، لہٰذا بل کو مؤخر کرکے کمیٹی کو بھیجا جائے۔

رمیش کمار ونکوانی نے کہا کہ آج اس بل کو پاس ہونا چاہیے، میں نے اس بل کی ایک ایک شق پہ کام کیا ہے۔

وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہ جب اکثریت بل کو قائمہ کمیٹی میں بھیجنے کا کہہ رہی ہے تو اکثریت کا فیصلہ مانا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر درشن نے کہا کہ جس کے لیے کام ہوتا ہے اسے مطمئن ہونا چاہیے، اس بل کو قائمہ کمیٹی کو بھیجیں، سب چیزوں پہ اتفاق ہو جائے گا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ بل ایک مرتبہ کمیٹی سے ہو کر آیا ہے، ممبران کے تحفظات ہیں، جنہیں تحفظات ہیں وہ وفاقی وزیر سے ملیں اور وفاقی وزیر اس پر بیان دے دیں، لہٰذا اس بل کو آج موخر کیا جانا چاہیے۔

رمیش کمار ونکوانی نے کہا کہ جو اقیلتی ممبر ترمیم لے کر آیا ہے اس بل کو ان ترامیم کے ساتھ آج ہی پاس کریں۔

تاہم اسپیکر نے قومی کمیشن برائے اقلیتیں بل 2023 مؤخر کردیا۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 ایوان میں پیش کیا جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کرلیا

اجلاس میں پاکستان انٹرنیشنل ایٸر لاٸن کارپوریشن ترمیمی بل پہ اظہار خیال کیا گیا۔

عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ ہم پی آٸی اے کو نجی کرنے جا رہے ہیں، جن اداروں کی پہلے نجکاری ہوٸی ان کے ملازمین کا پرسان حال نہیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے ادوار میں ان اداروں میں سیاسی بھرتیاں کیں اور اب انہیں نکال رہے ہیں۔

جس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس بل کی وجہ سے کسی کی نوکری نہیں جائے گی، بل میں جدید جہاز خریدنے کی ترامیم کی گٸی ہیں، یورپ اور برطانیہ کی فلاٸٹس بند ہونے سے سالانہ 82ارب روپے کا خسارہ ہے، لہٰذا بل کو آج ہی منظور کیا جائے۔

وفاقی وزیر قانون نے پاکستان انٹرنیشنل ایٸرلاٸن کارپوریشن تبدیلی ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا اقع قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے بل منظور کرلیا

رکن اسمبلی سائرہ بانو نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا حکومت جاتے جاتے کیا کرنا چاہ رہی ہے، نہیں کہنا چاہتی کہ حکومت پی آئی اے کو ایئر فورس ونھ بنانا چاہتی ہے، حکومت نے جاتے جاتے پائلیٹوں کو بھرتی کرنے کے لیے بل پاس کیا، اس قانون میں لکھا ہے کہ ریٹڈ پائلٹ بھرتی کریں گے یعنی کریڈٹ پائلٹ نہیں چاہیے۔

سائرہ بانو نے کہا کہ والدین نے مشکل سے پڑھا کر جن بچوں کو فلائنگ کلب میں ڈالا انہیں نوکری کہاں سے ملے گی، ایک ایجنڈے کے تحت ارشد ملک صاحب کو لایا گیا اور ایک ایجنڈے کے تحت ہی ایک وزیر کو پیپر پڑھنے کو دیا گیا تھا اور ان کے بیان کے ذریعے پی آئی اے کو بٹھا دیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ اب منصوبے کے تحت 80 ریٹڈ پائلٹ لانے کی راہ ہموار کی گئی ہے، اگر پی ائی اے کو پرائیویٹائز کرنا تھا تو پھر ہمیں بھی او ایل ایکس پر ڈال دیں، موجودہ حکمران کوئی ادارہ نہیں سنبھال سکتے، پی آئی اے کو لیز پر دینا یا بیچنا تھا یہ تو کوئی بھی ساجھا ماجھا کر سکتا تھا

قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہاٸیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل 2023 منظور کرلیا گیا اور ایوان نے کثرت رائے سے عالیہ کامران کی تجاویز مسترد کردیں۔

علاوہ ازیں قومی اسمبلی نے وفاقی اردو یونیورسٹی برائے آرٹس، ساٸنس و ٹیکنالوجی اسلام آباد ترمیمی بل 2023 بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

تبصرے (0) بند ہیں