ہزارہ ایکسپریس حادثے کی تحقیقات جاری ہیں، تباہ شدہ پٹریوں، بوگیوں وغیرہ کے معائنے کے بعد وفاقی حکومت کے انسپکٹر ریلوے (ایف جی آئی آر) علی محمد آفریدی 16 اگست کو نواب شاہ ریلوے اسٹیشن کا دورہ کریں گے تاکہ کوئی شخص ثبوت چاہے تو اس کے بیانات ریکارڈ کیے جا سکیں۔

خیال رہے کہ 6 اگست کو ہونے والے ہزارہ ایکسپریس حادثے میں 30 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد علی محمد آفریدی 17 اگست کو بیانات لینے کے لیے سکھر جائیں گے۔

پاکستان ریلوے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جو لوگ تحریری طور پر بیان دینا چاہتے ہیں وہ اسے بذریعہ ڈاک ایف جی آئی آر کو بھیج سکتے ہیں جو 22 گریڈ کے افسر ہیں اور بڑے حادثات کی تحقیقات کے حوالے سے اعلیٰ ترین اختیار رکھتے ہیں۔

سانحے کے حقائق تلاش کرنے کی مشق میں اس بات پر توجہ مرکوز کی جائے گی کہ کوٹری اسٹیشن پر پہیوں میں خرابی کی نشاندہی کے بعد ٹرین کے انجن کو عارضی طور پر مرمت کرکے آگے جانے کی اجازت کیسے دی گئی، اور ٹریک کی کمزوریوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔

کوٹری سے بدقسمت ٹرین کو جانے کی اجازت دی گئی، جو صرف ضلع سانگھڑ کے علاقے سرہڑی کے سگنل پر حادثے کا شکار ہوئی، کوٹری اسٹیشن کراچی ڈویژن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

بعدازاں، ابتدائی طور پر وزارت ریلوے کی طرف سے کارروائی کرتے ہوئے سکھر ڈویژن کے ڈویژنل ایگزیکٹو انجینئر حافظ بدرالعرفین (گریڈ 18) ؛ کراچی ڈیزل ورکشاپ کے منیجر عاطف اشفاق (گریڈ 18) ، نواب شاہ کےاسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر محمد مجید (گریڈ-17)، شہداد پور کے پرمیننٹ وے انسپکٹر محمد عارف، کوٹری ریلوے اسٹیشن کے پاور کنٹرولر بشیر احمد اور گینگ مین کنگلے کو معطل کر دیا تھا، جو ٹریک کا دورہ کرنے والے گروپ کا حصہ تھے۔

کراچی ڈویژن کے لیے پاکستان ریلوے کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ناصر خلیلی نے بتایا کہ اس بارے میں انکوائری کی جائے گی کہ ٹرین کو مزید سفر کی اجازت دینے سے قبل کوٹری ریلوے اسٹیشن پر متعلقہ پاور کنٹرولر اور کراچی ڈویژن کے ڈویژنل انجینئر کے درمیان کس قسم کی رابطہ قائم ہوا تھا۔

ایک سابق ڈی ایس نے ڈان کو بتایا کہ ڈویژنل ایگزیکٹو انجینئر ٹریک کی باقاعدہ دیکھ بھال کے لیے انسپکٹرز اور معاونین کے ساتھ ایک بڑا سیٹ اپ چلاتے ہیں، اس عہدے پر فائز افسر کو کئی اہلکاروں کے ذریعے ٹریک کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ورکس مینیجر کو شیڈ میں انجنوں کی نگرانی کا کام سونپا جاتا ہے، پاور کنٹرولر مختلف ٹرینوں کے لیے انجن کا انتخاب کرتا ہے۔

سابق افسر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ریلوے کے شیڈ میں عملہ پاور کنٹرولر کے تحت کام کرتا ہے کہ بوگیوں میں کون سا انجن لگانا ہے، یہ دیکھنا ہے کہ پاور کنٹرولر اور اعلیٰ افسر کے درمیان کس قسم کا رابطہ قائم ہوا، جس کے بعد پہیوں کو عارضی طور پر مرمت کرکے ٹرین کو جانے کی اجازت دی گئی، یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تفصیلی انکوائری میں جائزہ لیا جائے گا۔

حاضر سروس ریلوے افسر کے مطابق اس انجن کو جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی کیونکہ پہیوں کا فالٹ ہمیشہ بڑا حساس معاملہ ہوتا ہے، مجھے حیرت ہے کہ فالٹ کا مشاہدہ کرنے کے باوجود کیوں جانے کی اجازت دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ حادثے کے نتیجے میں ٹریک اکھڑ گیا تھا جس کے نتیجے میں سکھر کے ڈویژنل ایگزیکٹیو انجینئر کو معطل کیا گیا، ڈویژنل انجینئر کو ریلوے لائن کی دیکھ بھال کو یقینی بنانا ہوتا ہے، اسی طرح پرمیننٹ وے انسپکٹر کو اپنی حدود میں ٹریک کی مینٹیننس کا ذمہ دار ہوتا ہے، ریلوے لائن کی حفاظت بنیادی طور پر وے انسپکٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

افسر نے بتایا کہ اگر ٹریک مضبوط ہوتا تو ٹرین رک جاتی اور بوگیاں پٹری سے نہیں اترتیں، حقیقت مین ایسا نہیں ہوا جس سے کمزور ریلوے ٹریک کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایس کی عام طور پر انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری ہوتی ہے جس میں ان کے عملے اور ریلوے ہیڈکوارٹر کا تعلق ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں