ضمانت کی درخواستیں خارج ہونے کے بعد عمران خان کی فوری رہائی کے امکانات معدوم

اپ ڈیٹ 11 اگست 2023
عمران خان کو 5 اگست کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد ان کی قانونی ٹیم نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ  سے رجوع کیا—فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان کو 5 اگست کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد ان کی قانونی ٹیم نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا—فوٹو: ڈان نیوز

احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ کے القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ کیسز میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں خارج ہونے کے بعد ان کی جلد رہائی کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے دو مقدمات درج ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان پر ظاہر کیے گئے اثاثوں میں کچھ حقائق چھپانے کا الزام لگایا اور انہیں سزا سنائی، اس کے علاوہ توشہ خانہ کیس کی تحقیقات قومی احتساب بیورو (نیب) کر رہا ہے جس میں سابق وزیر اعظم کے خلاف مبینہ طور پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

عمران خان کو 5 اگست کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد ان کی قانونی ٹیم نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور سزا معطل کرنے کی استدعا کی، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بدھ کو واضح کیا کہ وہ متعلقہ حکام کو سننے کے بعد ہی درخواست پر فیصلہ کریں گے۔

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے مختصر مدت کے لیے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی تاکہ عدالت ایک ہفتے کے اندر کیس کا فیصلہ کر سکے، وہ آئندہ ہفتے تک عمران خان کی رہائی کے لیے پرامید تھے، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی درخواست مسترد ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی جلد رہائی کے امکانات ختم ہو گئے۔

چونکہ نیب پہلے ہی ان کے وارنٹ جاری کر چکا ہے، اس لیے جیسے ہی وہ وہ جیل سے رہاں ہوں گے تو انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا جائے گا۔

دوران سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے طنزیہ ریمارکس دیے کہ عمران خان کو نیب کی حراست میں قدرے آرام ملے گا کیونکہ وہاں کا ایئر کنڈیشنڈ لاک اپ اٹک جیل کی بیرک سے کافی بہتر ہے۔

خواجہ حارث نے احتساب عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو ایک ہفتے کے اندر رہا کر دیا جائے گا اور جج سے استدعا کی کہ دونوں مقدمات میں ان کی عبوری ضمانت میں جمعہ تک توسیع کردی جائے۔

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر خان عباسی نے مشرف کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا تھا کہ ’ایک سے زائد فوجداری مقدمات میں گرفتار ملزم کو تمام مقدمات میں گرفتار تصور کیا جائے گا‘۔

جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ وہ ملزم کی عدم موجودگی میں ضمانت قبل از گرفتاری دینے کے مجاز نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مختصر التوا دیا جا سکتا ہے لیکن موجودہ کیس میں ملزم جیل میں اپنی سزا کاٹ رہا ہے، سزا کی معطلی کا معاملہ آئندہ ہفتے طے کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں توسیع کو وقت صرف عمل قرار دیا اور دونوں مقدمات میں ان کی قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواستوں کو خارج کر دیا۔

بشریٰ بی بی کی عمران خان سے ملاقات

سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے جیل میں بند ہونے کے بعد پہلی بار اپنے شوہر عمران خان سے اٹک جیل میں ملاقات کی۔

سخت سیکیورٹی کے درمیان وہ وکلا کے ہمراہ جیل پہنچیں، تاہم صرف بشریٰ بی بی کو ہی جیل میں اندر جانے کی اجازت دی گئی اور ملاقات تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔

بعد ازاں عمران خان کے وکیل نے کہا کہ بشریٰ بی بی نے بتایا کہ ان کے شوہر ٹھیک ہیں۔

وکیل نے کہا کہ بشریٰ بی بی نے بتایا کہ عمران خان کو ابھی بھی اسی چھوٹے، سی کلاس سیل میں رکھا جا رہا ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ وکلا نعیم پنجوتھا، شیر افضل مروت اور علی اعجاز بٹر کو چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ انہوں نے اس سلسلے میں جیل حکام کو عدالتی احکامات بھی دکھائے۔

ذرائع نے بتایا کہ ملاقات کے بعد بشریٰ بی بی لاہور روانہ ہوگئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں